Sheikh Michael Mansur: Why He Became a Christian
by
Allama Sheikh Kamil Mansoor
شیخ میخائیل منصور کیوں مسیحی ہوئے
الف
دیباچہ مصنف
"مسیح میری زندگی ہے اورموت نفع"
انسان کی زندگی کی معیار یہ نہیں کہ وہ دنیائے
ناپائیدار میں زیادہ عرصہ تک زندہ رہے بلکہ وہ نیک اعمال ہیں جوہمیشہ تک اُسکے نام
کوزندہ رکھتے ہیں۔
تمام افعال سے بہتر افعال جن سے انسان کوہمیشہ کی
زندگی اورنیک نامی حاصل ہوتی ہے فداکاری اورخودانکاری ہے جوخدا کی مخلوقات کی
بہبودی کے لئے کی جاتی ہے۔ چونکہ حقیقی شجاعت اس شعبہ حیات کے سوا کہیں اورنہیں
پائی جاتی ہے لہذا میں ان اصحاف کی خدمت میں جوفداکاری اورخودانکاری کے شائق ہیں
اوردوسروں کے مفاد کی خاطر اپنی زندگی صرف کررہے ہیں اپنے بھائی کی سوانح عمری کا
ایک ورق پیش کرتا ہوں اورساتھ ہی اپنی اس تقصیر کا اعتراف کرتاہوں کہ اس تاریخ کی
تدوین کیلئے جتنے مواد کی ضرورت تھی وہ فراہم نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان کی نظم اورنثر
،مراسلات ومضامین کا ایک کافی حصہ ضائع ہوچکاہے۔ نیز اس کتاب کی اشاعت کی تاخیر کے
لئے بھی معذرت چاہتاہوں کہ چند گوناگوں اورناگہانی امور کی وجہ سے اس کی اشاعت میں
اس قدر تاخیر واقع ہوئی ہے۔
میں خدا سے دعا کرتاہوں کہ وہ اس کتاب کوبہتوں کے لئے
شمع راہ ہدایت ثابت کرے۔ آمین۔
کامل منصور
فہرست مضامین
|
دیباچہ مصنف
|
آپ کے بعض مطبوعہ مضامین
|
شیخ موصوف کی سوانح عمری
|
لاتبدیل کلمات اللہ
|
آپ کی زندگی کا دوسرا دور
|
توحید وتثلیث
|
آپ کی مسیحیت کی جستجو اورآپ کا مسیحی ہونا
|
سوال اوراس کا جواب
|
آپ کی مسیحیانہ زندگی
|
مسیحی مسلمانوں کے قرضدار ہیں
|
آپ کے مصائب
|
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا
|
آپ کا ایمان
|
سوالات اورجوابات
|
آپ کے اخلاق واوصاف
|
مسلمانوں کی خدمت میں گذارش
|
آپ کا کام میں مشغول ہوجان
|
الاستبصار درتردید منار
|
آپ کی بیماری اورموت
|
آپ کے متعلق چند مشہور اشخاص کی رائے
|
شیخ موصوف کی سوانح عمری
اوراُن کی اسلامی زندگی
آپ کا نام محمد تھا۔ اورآپ کے والد کا نام محمد بن
منصور تھا۔ آپ مارچ ۱۸۷۱ء میں شہر سوہاج میں جوضلع جرجا کا حاکم نشین ہے پیدا ہوئے
اورحسب دستور آپ اس مکتب میں جوالعارف باللہ کی مسجد میں جاری تھا داخل کئےگئے تاکہ
قرآن شریف کو حفظ کرلیں۔ اس وقت اس مکتب کے قاری شیخ مسعود العزازی تھے جوحسن تربیت
میں بہت ہی مشہور تھے۔ آپ نے ایک قلیل عرصہ میں قرآن شریف کو ازبرکیا۔ چونکہ آپ کے
بشرہ سے ذکاوت اورذہانت کےآثار ظاہر ہورہے تھے لہذا آپ کے والد صاحب نے آپ کو سوہاج
کے ایک قریب ہی کے گاؤں میں جس کا نام لصفورہ ہے مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے
بھیجا۔کیونکہ یہاں ایک مشہور مسجد ہے جس میں علوم اسلامیہ کی تعلیم نہایت اہتمام کے
ساتھ ہوتی ہے اورمصر کے چاروں طرف سے طلبہ نہایت کثرت کے ساتھ یہاں تعلیم حاصل کرنے
کی غرض سے آتے رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس مدرسہ کے مدرس اعلیٰ شیخ علی
بدرالعالم مالکی صوفی خلوتیہ مرحوم تھے جوعلوم نقلی وعقلی کے ماہر ہونے کے علاوہ
کثیر التعداد طلبا کے پیرومرشد بھی تھے۔
جب یہ
ہونہار طالب علم اس مدرسہ میں داخل ہوگیا تواس کی فہم و فراست کودیکھ کر شیخ موصوف
نے خاص طورپر اس کی تعلیم وتہذیب کی طرف توجہ مبذول رکھی اورہر طرح سے اس کے قوا کی
تکمیل کو ملحوظ رکھا۔
اس بے مثل شاگرد نے بھی اس موقع کوبساغنیمت سمجھا اور
اپنے مہربان استاد کی خدمت میں کامل دس سال رہ کر ہر طرح سے استفادہ کیا یہاں تک کہ
مالکی فقہ کو مکمل طورپر حاصل کیا۔ اورتفسیر میں تفسیر کشاف، اورتفسیر بیضاوی
اورتفسیر جلالین کو۔ اورحدیث میں اربعین نودی وصحیح مسلم وصحیح بخاری کواوردیگر کتب
توحید اورلغت اورصرف ونحواورعلم بیان ومنطق اورفلسفہ وتاریخ اورعلم اصول کونہایت
کامیابی کے ساتھ ختم کیا۔ اوراپنے ہم جماعت طلباء سے ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا
اوراستاد بھی اس کی ذہانت سے متعجب تھا۔ اس کی علمی لیاقت کی ایک ادنیٰ دلیل یہ ہے
کہ جب یہ طالب علم ہی تھا تواس کے استاد نے اس کو" مغنی لبیب" پر تعلیق لکھنے کا
حکم دیا چنانچہ لکھ کراستاد کی خدمت میں پیش کی جس کودیکھ کر اُستاد نے بہت تعریف
افسوس ہے کہ یہ تعلیق ان کے پاس سے ضائع ہوگئی۔ لیکن اس کا دیباچہ ان کے پاس محفوظ
رہا جس کو میں نے اُنکی بزرگی میں ان سے لے لیا تھا جویہ ہے:
اللھمہ [1] یا من شواھد صنعک طاہرتہ البر ھان و عوامل
اثارک محکمتہ البیان الخ"۔
امابعد فیقول[2] ذواالتقصیر والقصورمحمد بن محمد بن
منصور ھذا تعلیق طفیف علی شواھد مغنی اللبیب عن کتب الاعاریب صملنی علیہ من لا
ترداشارتہ وہ لا یسعنی مخالفتہ العالمہ العلامہ الشیخ علی بدرمتع اللہ الامتہ
بوجودہ وافاض علیھم من جم انعامہ وجودہ وانی وان کانت بضاعتی مزجاتہ روللشئی علی
الشئی مقایلیس واشباہ) جعلت علی مولای اعتمادی وبہ اعتقادی فقلت وعلیہ توکلت ۔
نیز آپ کی طالب علمی کے زمانہ کا ایک مشہور عربی
قصیدہ ہے جس میں آپ نے خدا کے ننانوے ناموں کوجن کوصوفی بطور ورد کے ازبرکیا کرتے
ہیں نظم کیا ہے۔ نیز آپ کی اوربھی بہت سی نظم ونثر ہیں جن کو ہم بخوف طوالت نظر
انداز کرتے ہیں۔
آپ کی اسلامی زندگی کا دوسرا دور
یہ بے مثل طالب علم فارغ التعیم ہوکر ۱۸۹۱ء میں مدرسے
سے نکل کر سوہاج واپس آئے۔ ابتداءً آپ بہت ہی خاموش اورقلیل الکلام اور تنہا پسند
رہا کرتے تھے۔ دن کو بڑی بڑی کتابوں کے مطالعہ میں اوررات کوذکرواذکار میں مشغول
رہتے تھے۔ صوفیانہ زندگی کی طرف بہت ہی مائل تھے۔ باطن کی صفائی میں ہمہ تن کوشش
کیا کرتے تھے اورعالم لاہوت کے اسرار کے اکتشاف میں مستغرق رہا کرتے تھے۔اسی حالت
میں آپ نے بہت سے قصائد نظم کئے اور آپ کی شہرت چاروں طرف آفتاب کی طرح پھیل گئی۔
چارو ں طرف سے لوگ استفادہ کی غرض سے جوق جوق آنے لگے۔ اس لئے آپ کومجبوراً خانہ
نشینی ترک کرنا پڑا اورسوہاج کی بڑی بڑی مسجدوں میں وعظ کرنے کی غرض سے بلائے جانے
لگے۔ آپ نے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جس میں ابتداءً آپ کے احباب داخل ہوئے لیکن بہت
ہی کم مدت میں اطراف واکناف کے طلباء سے بھرگیا۔
آپ کی مسیحیت کی جستجو
اورآپ کی مسیحی ہونا
۱۸۹۳ء
میں آپ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ مسیحیت کی تفتیش کی
جائے اورجہاں تک ہوسکے اُس کومغلوب کیا جائے چنانچہ آپ نے مولوی رحمت اللہ صاحب کی
کتاب اظہار الحق کوغور سے مطالعہ کیا اوراپنے استاد شیخ علی بدر سے عیسائیوں کے
ساتھ مباحثہ کرنے کی اجازت چاہی لیکن استاد نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ" آپ نے
مجھ سے عہد کرلیا تھا کہ عیسائيوں اوریہودیوں سے تعرض نہیں کرینگے"۔ استاد صاحب کا
یہ دستور تھاکہ اپنے شاگردوں سے اس قسم کا عہد لیا کرتے تھے تاکہ مباحثہ کرنے میں
جوتکبر اورغرور پیدا ہوجاتاہے اس سے ان کے شاگرد بچیں"۔
لیکن
آپ نے اپنے استاد کویہ کہہ کر قائل کیاکہ اسلام کی تبلیغ اورغیر مذاہب کے ساتھ
مباحثہ کرنا ہرایک مسلمان پرفرض ہے۔ چنانچہ خدا فرماتاہے کہ" ان کوحکمت اوروعظ کے
ساتھ خدا کے راستہ کی طرف بلالواوراچھے طریقہ سے اُن سے مباحثہ کرو"۔ استاد نے کہا
بے شک بات یوں ہی ہے لیکن مجھ کو ڈر ہے کہ تمہارا وقت بحث ومباحثہ میں ضائع نہ
ہوجائے اور اندرونی پاکیزگی اورصفائی کے لئے تمہیں وقت نہ ملے۔حالانکہ انسان کے لئے
سب سے ضروری ہے امریہ ہے کہ وہ خواہشات نفسانی کو ترک کرے اورحتی الامکان اپنے مولا
کی رضامندی پرچلے۔ لیکن اپنے استاد کی دلائل سے اُن کی تسلی نہ ہوئی اورمسیحیوں کے
ساتھ مباحثہ کرنے کا تہیہ کرلیا۔
اس میں
کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ روح القدس کی تحریک سے ہوا اورجوان کے مسیحی ہونے
اورنجات پانے کے لئے ایسا سبب مہیا کررہا تھاجس سے وہ بہت جلد حضور مسیح کوقبول
کرلیں۔
جس شخص
کے ساتھ سب سے پہلی آپ کی مذہبی گفتگو ہوئی اُس کا نام میخائیل تھا جس کے ساتھ آپ
کا تعارف پہلے سے ہوچکا تھا۔جب آپ نے اس کے ساتھ گفتگو کرنی چاہی تواُس نے صاف کہہ
دیا کہ میں مباحثہ کرنے کے اصول سے واقف نہیں ہوں توآپ نے کہا کہ اچھا مجھے کسی
ایسے پادری کے پاس لے چلو جوبحث ومباحثہ سے واقف ہو۔ آپ نے یہ جملہ اس اصرار کے
ساتھ کہا کہ میخائیل مجبورً آپ کوایک آرتھوڈکس پادری کے پاس لے گیا جس کا نام" قمص
منفریوس" تھا۔ لیکن وہ بھی اُن کو مطمئن نہ کرسکا۔ اورایک اسکول ماسٹر کے پاس لے
گیا۔ اُس نے کہا کہ میں آپ کے سوالات کے جواب نہیں دے سکتا۔ اگرآپ میرے ساتھ "
الجمعیہ انجیلیہ" کے پاس چلے جائیں توممکن ہے کہ وہاں پادری صاحبان آپ کے سوالات کے
جواب دے سکیں۔چنانچہ دونوں روانہ ہوگئے جب" الجمعیہ انجیلیہ" میں پہنچ گئے تواُس
وقت عبادت ہورہی تھی۔ مسیحیوں کی عبادت کودیکھ کر آپ شش در رہ گئے کہ کس طرح نمازی
اپنے واعظ کی نصیحت سننے کے لئے ہمہ تن گوش بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کی روحانی
تسبیح وتہلیل کودیکھ کر آپ حیران رہ گئے کیونکہ دیگرمسلمانوں کی طرح آپ کے خیال میں
بھی نہیں آسکتا تھاکہ مسیحی اس طور پر خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ بلکہ آپ یہ سمجھتے
تھے کہ مسیحی لوگ بھی بت پرستوں کی طرح مسیح کے اوردیگر مقدسین کے بتوں کی پرستش
کرتے ہیں۔
جب
عبادت ختم ہوگئی تواسکول ماسٹر صاحب نے گرجہ کے پادری صاحب سے آپ کا تعارف کرایا۔
تعارف کے بعد پادری صاحب نے مباحثہ کرنے کے لئے جگہ اور وقت مقرر کیا۔ جب حسب وعدہ
دونوں اکٹھے ہوگئے تو وحدت اورتثلیث پر بہت دیر مباحثہ ہوتا رہا۔ مباحثہ کے بعد شیخ
منصور کواپنی فتحمندی کا یقین ہوگیا جس سے اسلام کا تفوق اورمسیحی عقائد کا ضعف اُس
کے دل میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ جم گیا لیکن ان کے رخصت ہونے سے قبل پادری صاحب نے
ان سے کہاکہ" ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ خدا سے ہدایت مانگے اورمیں آپ کو نصیحت
کرتاہوں کہ آپ بھی خدا سے دعا کریں کہ وہ سچی راہ آپ کودکھائے"۔ پادری صاحب کے اس
جملہ سے آپ کے دل میں ایک عجیب خلجان پیدا ہوگیا اوراپنے آپ سے یہ سوال کرنے لگے
کہ" کیا میں سچائی پر قائم ہوں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ میرا طریق جس پر میں قائم ہوں
باطل پر ہو"؟ اس قسم کے خیالات نے آپ کے دماغ میں پیدا ہوکر آپ کو بہت ہی مضطرب
اورپریشان رکھا۔ آپ نے بہت ہی کوشش کہ ان خیالات سے رہائی حاصل کریں لیکن جس قدر آپ
کوشش کرتے تھے اسی قدر شک ویقین میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ نہ توایسی دلائل پیدا ہوجاتی
تھیں آپ کو مسیحیت کی طرف سے کھینچ لیں اور نہ ایسے اسباب کہ آپ اسلام سے متنفر
ہوں۔ درحقیقت یہ سب کچھ روح القدس کا کرشمہ تھا۔
اس قسم
کے تفکرات اورخیالات روز بروز بڑھتے گئے یہاں تک کہ آپ اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ
دنیا کے مذاہب میں سے کسی مذہب کودوسرے مذہب پر فوقیت حاصل نہیں جب تک کہ اس کی
فوقیت براہیں اوراستدلال سے ثابت نہ ہوجائے لہذا ان کے نزدیک تمام مذاہب ایک ہی سطح
پر واقع تھے اوریہ کہ جن میں سے جس کو انسان صحیح اوربرحق سمجھے قبول کرے اورجس کو
برغلط سمجھے رد کرے۔
المتخصر ۔ آپ برابر سوال وجواب اوربحث ومباحثہ میں
مشغول رہے اوراکثر راتوں کو کلیسیائے انجیلی میں جاکر وعظ سنا کرتے تھے۔ پادری
میخائیل صاحب کے جوکلیسیائے انجیلیہ اسکندریہ کے پاسبان تھے وہ وعظوں نے آپ پر خاص
اثر کیا جن میں سے ایک اس آیت پر تھاکہ:
"خدا
سچا ہے جس نے تمہیں اپنے بیٹے ہمارے سیدنا عیسیٰ مسیح کی شراکت کے لئے بلایا
ہے"(۱کرنتھیوں۱: ۹)۔
اوردوسرا اس زبور پر کہ:
"جوکوئی ستائش کے ذبیحے گذارنتاہے وہ میرا جلال ظاہر
کرتاہے۔ اوراس کو جو اپنی چال چلن درست رکھتاہے میں خدا کی نجات دکھاؤنگا"۔(زبور
۵۰: ۲۳)۔
اس
اثنا ء میں آپ نے بہت روحانی تکلیف اٹھائی اورتذبذب اور شک ویقین کے درمیان دائررہے
یہاں تک کہ آپ کی اس سراسیمگی اور مضطر بانہ حالت کودیکھ کر ہمیں گمان ہوچلا تھاکہ
آپ کسی دماغی آفت میں مبتلا ہیں۔اکثر آپ اپنے کمرے میں داخل ہوجاتے تھے اوردروازہ
بند کرکے سارا دن اسی میں پڑے رہتے تھے۔ آپ کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑگیا تھا
اورزیادہ غوروخوض کی وجہ سے آپ بہت ہی مضحمل معلوم ہوتے تھے آپ کے والد اوردوستوں
نے بہت چاہا کہ آپ کے اضطرار اوربے چینی کی وجہ دریافت کریں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
آپ رات
دن بائبل مقدس کے پڑھنے میں مشغول رہتے تھے جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے آپ کوبار
بار پڑھتے دیکھا ہے۔ آپ کوشش کرتے تھے کہ میرے سوا ئے کسی اورکواس کا علم نہ ہوجائے
اس لئے مجھ کوبھی تاکید کرتے تھے کہ کسی کے سامنے اس کا ذکر نہ کروں۔ ایک مدت کے
بعد پھر آپ کے بشرہ پرخوشی اورسرورکے آثار نمودار ہونے لگے جس کی وجہ یہ تھی کہ
ہمارے منجی کا نورآپ کے دل پر توافگن ہوا۔ حضور مسیح اپنی کمال محبت کے ساتھ آپ
پرظاہر ہوئے اورآپ پر مسیحی صداقت ،محبت اوراس کی تسلی بخش تعلیم اپنی تمام شان
وشوکت کے ساتھ منکشف ہوگئی۔ اورآپ کوکامل طورپر اس کا یقین ہوگیاکہ فی الحقیقت صرف
حضور مسیح ہی راہ حق اورزندگی ، میں اور انسان سراپا گنہگار ۔ خاطی اورعاصی ہے
اورحضور کے سوائے اورکوئی نجات دہندہ نہیں ہے۔
اس کے
بعد آپ مسیحیوں کے ساتھ خوب مل جل گئے اوراُن کی کتابوں سے اپنے کتب خانہ کوبھردیا
جس سے مسلمانوں کے دل میں شک پیدا ہونے لگا لیکن ظاہر نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ کوئی
شخص یہ باور نہیں کرسکتا تھا کہ ایسے عالم فاضل ، محقق ، متقی، پرہیزگار اورصوفی
،جورات دن نمازوروزہ میں زندگی بسرکرتے ہیں کس طرح مسیحی ہوسکتے ہیں۔
لیکن شک کرنے والوں کی جماعت بڑھتی گئی اورلوگوں کی
مخالفانہ نگاہیں آپ پر پڑتی گئیں اورآپ کے دوستوں نے آپ کوصلاح دی کہ مسیحیوں کے
ساتھ نشست وبرخاست ترک کریں اوراُن کے یہاں آیا جانہ کریں۔لہذا آپ مجبوراً راتوں
کویا پوشیدہ طورپر مسیحیوں کے یہاں جانے لگے لیکن اس سے بھی کچھ فائدہ نہ نکلا
اورلوگ برابر آپ کوہدف ملامت بنانے لگے اور الحادوکفر کی طرف نسبت دینے لگے چنانچہ
وہ خود فرماتے ہیں کہ
لقد زعموا انی بحبک ملحد
وانی بتہ صدیقی کتابک کافر
وقالوامفصل جبہ اللہ وجہہ
واحرمہ نیل المنیٰ وھوقادر
فان کان حب اللہ جل جلانہ
وتصدیقہ کفراً فانی کافر
یعنی" اے خدا لوگ تیری محبت کی وجہ سے مجھ کوملحدخیال
کرتے ہیں۔ اورتیری کتاب کی تصدیق کے سبب مجھ کوکافرکہتے ہیں۔ اورکہتے ہیں کہ یہ
کافر ہے خدا اُن کوذلیل کردے اورنامراد کردے اوروہ ایسے کرنے پر قادر ہے۔ پس اگر
خداکی محبت اوراُس کی تصدیق کفر ہے توبے شک میں کافر ہوں"۔
جب اُنہوں نے مسلمانوں کا یہ سلوک دیکھا اورنیز یہ کہ
ایمان کے نہ ظاہر کرنے میں گناہ ہے اور ایسا بوجھ ہے جس کو وہ برداشت نہیں کرسکتا
ہے توآپ نے کلیسیائے انجیلیہ سے درخواست کی کہ مجھے بپتسمہ دولیکن کلیسیائے مذکور
نے خوف کی وجہ سے ڈھیل ڈال دی اورایسا جواب دیا جس کا انتظار نہیں کیا جاسکتا
تھا۔لہذا آپ نے کاتھولیکی قبطی پادری صاحب کواس معاملہ کی اطلاع دی جس کا جواب
اُنہوں نے یہ دیاکہ کلیسیائے کاتھولیکی بالکل تیار ہے کہ آپ کو بپتسمہ دے اورادھر
بطر کخانہ کاتھولیکیہ کوجوقاہرہ میں تھا خط لکھا جس کے جواب میں بطرکخانہ نے یہ
لکھا کہ ان کو فی الفور یہاں بھیج دو۔
ہم کو اس معاملہ کا مطلق علم نہ تھا کہ یکایک آپ نے
ہمیں اپنے سفر کی اطلاع دی اوراپنے مدرسہ کواپنے شریک کار کے سپرد کرکے ہوا کے
گھوڑے پرسوار قاہرہ جاپہنچے اورکلیسیائے کاتھولیکہ میں شریک ہوئے یہ ۱۸۹۴ء کے
آخرکاواقعہ ہے اوراپنا نام "میخائیل" رکھوایا۔ اس طرح آپ کا بپتسمہ باپ،بیٹے ،روح
القدس کے نام پر ہوا"۔
لیکن
آپ کے مسیحی ہونے پر ابھی ایک ہفتہ بھی گذرنے نہیں پایا تھاکہ تمام سوہاج اوراس کی
اطراف میں سرعت کے ساتھ آپ کے مسیحی ہونے کی خبرپہنچ گئی ۔ پھر کیا تھا چاروں اطراف
سے وفد پر وفد آنے لگا اورہم سے آپ کے مسیحی ہونے کی صحت دریافت کرتے تھے۔ لیکن ہم
کیا جواب دے سکتے تھے۔ کیونکہ ہم خوددوسروں کی طرح حقیقت حال سے بالکل ناواقف تھے۔
اس لئے آپ کے والد صاحب فی الفور قاہرہ روانہ ہوئے تاکہ اس خبر کی حقیقت دریافت
کریں۔ تمام لوگوں میں آپ کا مسیحی ہونا موضوع بحث رہا۔
آپ کی
والدہ اوربھائی اورتمام خاندان کے افراد کی ایسی حالت تھی جس کےبیان کرنے سے میرا
قلم قاصر ہے۔ آپ کی والدہ کا کام رونے اورپیٹنے کے سوائے اورکچھ نہ تھا۔ اسی طرح آپ
کے بھائی اورخالائیں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ گویا کالبد بے روح ہیں۔ ہمارا
گھرمردوں اور عورتوں سے بھرا رہتا تھا جو روروکریہی دعا مانگنے تھے کہ ایا الہٰی یہ
خبر غلط ہو ۔
آپ کے اُستاد علامہ شیخ علی بدر کی توحالت ہی نہ
پوچھئے آپ اس طرح روتے تھے جس طرح کوئی بڑھیا عورت اپنے اکلوتے بیٹے کی موت پر روتی
ہو۔ اوریہ کہتے جاتے تھے کہ " شیخ منصور کی طرح لیاقت اور ذہانت کا شخص اب نہیں مل
سکتا۔ الہٰی جوکچھ ہم سن رہے ہیں غلط نکلے"۔
آپ کی والدہ جب قاہرہ پہنچ گئے توسیدھے بطرکخانہ کا
تھولوکیہ میں گئے اوراپنے بیٹے سے مل کر اُن سے کہا کہ سوہاج میں یہ خبر پہنچ گئی
ہے کہ تم مسیحی ہوگئے ہو کیا یہ سچ ہے۔ بیٹے نے کہا کہ بے شک میں مسیحی ہوگیا ہوں
اور یہ خبر سچ ہے۔ اورمیں نے مسیح پر ایمان لاکر اطمینان کلی حاصل کرلیا ہے اُن کے
منہ سے یہ جملہ نکلنا ہی تھا کہ آپ کے والد صاحب پر بجلی گرگئی۔ غم اور غصہ کے مارے
قریب تھا کہ اُن کا دل پھٹ جائے۔ کبھی اپنے بیٹے کودھمکاتے تھے اورکبھی پھسلاتے تھے
اوررورو کراُن کوباز آنے کی نصیحت کرتے تھے۔ لیکن بیٹے نے اپنے منجئی کا دامن اس
طرح پکڑا تھا کہ اُن باتوں کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔
کس کے قلم میں یہ طاقت ہے کہ باپ بیٹے کے اس منظر کی
کیفیت پورے طور سے بیان کرسکے۔ باپ بھی روتا ہے اوربیٹا بھی ۔ باپ اس لئے روتا ہے
کہ میرا بیٹا مجھ سے کھوگیا۔ بیٹا اس لئے روتا ہے کہ میرے باپ کو ایک بھاری صدمہ
پہنچا ہے اورجس امید پر وہ آئے ہیں وہ اُمید کبھی پوری نہ ہوگی۔باپ اس لئے روتاہے
کہ میری امیدوں کا خون ہوگیا بیٹا اس لئے روتاہے ک اب میں اپنے والد کےعواطف
اورسرپرستی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔
جب
والد صاحب نے دیکھا کہ جزع وفزع سے کچھ حاصل نہیں ہوتا تواپنے بیٹے سے کہا کہ خیر۔
تم مجھے چند خط لکھ دو۔ جس میں تمہارے مسیحی ہونے کی خبر کی تردید ہوتاکہ میں گھر
جاکر لوگوں کودکھادوں تاکہ تمہارے مسیحی ہونے کی وجہ سے ہمارے خاندان کی جوبدنامی
ہوتی ہے وہ رفع ہوجائے اورلوگ بھی خاموش ہوجائیں۔ لیکن بیٹے نے یہ کہہ کر انکار
کردیا کہ حضور مسیح نے فرمایاہے کہ" جوشخص لوگوں کے سامنے میرا انکار کریگا میں
اپنے آسمانی باپ کے سامنے اس کا انکار کرونگا"۔
والد صاحب اپنے بیٹے کے رنج اورغم سے قریباً ادھ موئے
ہوکر واپس سوہاج آگئے اورہم کو وہ تمام واقعات سنائے جوان دونوں میں ہوئے تھے۔
اورہم سے کہا کہ جہاں تک ہوسکے اس خبر کوچھپاؤ۔ اورخودایک مدت تک شرم اورعار کی وجہ
سے گوشہ نشین ہوگئے۔
جب آپ کے احباب کوآپ کے مسیحی ہونے کا یقین ہوگیا
تواُنہوں نے آپ کوبہت سے مراسلات لکھے۔ جن میں سے بعض توصرف استفسار واقعہ کے طورپر
تھے اوربعض مسیحیت کی تردید اوراسلام کی تائید کےطورپر تھے۔ منجملہ ایک مراسلہ آپ
کے اُستاد جناب علامہ شیخ علی بدر کی طرف سے تھا جس میں مسیحیت کی تردید اورکتب
مقدسہ کی تخریب پردلائل لکھی ہوئی تھیں ۔ افسوس ہے کہ اس رسالہ کو شائع نہ کرسکا۔
لیکن میں نے اُس کو چند بار پڑھا ہےاورمیرے بھائی کے پاس اُنکی موت تک محفوظ تھا
لیکن اُن کی موت کے بعد ضائع ہوگیا۔ ایک اورمراسلہ آپ کے دوست شيح حسین مقلد کی طرف
سے تھا جویہ ہےکہ:
"جناب! العالم الکبیر والفاضل الخطیر ! خدا جانتاہے
کہ آپ کے مسیحی ہونے کی بُری خبر سے ہمارے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اورہم پر بجلی
جیسی گرگئی۔ عقل ہرگز باور نہیں کرسکتی کہ آپ جیسے فاضل مسیحی ہوگئے ہونگے اورنہ
ہمارے کان اس قسم کی خبروں کوسن سکتے ہیں۔ خدا کرے کے یہ تمام باتیں جھوٹی ہوں۔
کیونکہ آپ کا مسیحی ہونااسلام اور مسلمانوں پرایک شدید ضرب ہے اورپیروں اورمریدوں
کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہاہے اورخویش واقارب کے لئے بے حد اذیت کا باعث
ہے۔اس لئے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ایسا تسلی بخش جواب دیں جس سے
بدگوؤں اوربدخواہوں کے منہ بند ہوجائیں اورہمارے دل ٹھنڈے ہوجائیں اور خدا کے اُس
قول کو فراموش نہ کریں جہاں لکھاہے کہ" اگرعلم رکھتے ہوئے تم نے اُن کی خواہشوں کی
پیروی کی تو۔۔۔"۔
اسی طرح علامہ شیخ محمد عبدربہ نے جوسوہاج میں علم
شریف کے مہتمم تھے شیخ بکرالمدار کی معرفت آپ کوایک خط لکھاکہ:
"یہ
خبر مشہور ہورہی ہے کہ حضرت شیخ محمد بن منصور مسیحیت سے بغل گیر ہونے کا ارادہ
رکھتے ہیں جس سے مسلمان مردوں اورعورتوں کے دل بے حد رنجیدہ ہورہے ہیں ۔ کاش کہ اس
خبر کی تصدیق سے پہلے ہماری ارواح قفسِ عنصری سے پرواز کریں"۔
شیخ
محمد عبدالمطلب نے جوکہ سوہاج میں سرکاری مدرسہ کے معلم تھے اورشاعری میں عدیم
النظیر تھے آپ کونظم میں ایک خط لکھا جودیکھنے کے قابل ہے۔ افسوس ہے کہ اردو دان
اصحاب کی عربی سے جوبے ذوقی ہے اس کی وجہ سے ہم اُس کو نقل نہیں کرسکتے ہیں۔
آپ کی مسیحیانہ زندگی
شیخ میخائیل منصورنے پرانی انسانیت کواُس کی تمام
خواہشات ومحرکات کے ساتھ اتارپھینکا اورنئی انسانیت کواس کے تمام نئے جذبات کے ساتھ
پہن لیا۔ گویاکہ آپ سراپائے نئے انسان بن گئے۔ آپ نے اپنے پیدائشی نام" محمد بن
محمد بن منصور" کوجوبیس سال سے زیادہ آپ کانام تھا چھوڑدیا اوراُس کے عوض میں
میخائیل منصور کو کہلاپسند کیا۔
اسی طرح آپ نے اپنے طریقِ عبادت کوتبدیل کردیا
اوراپنے تمام دلی میلان کا مرکز حضورِ مسیح کوٹھہرایا اوراسی نقطہ کے گرد والہانہ
طواف کرتے رہے۔
آپ نے
باپ بیٹے اورروح القدس کے نام پر ۱۸۹۴ء کے اواخر میں بپتسمہ لیا اوراگست ۱۸۹۵ء
کوایک کاتھولیکی وفد کی معیت میں پوپ لیو سیزدہم کی زیارت کے لئے اپنے اسلامی لباس
میں روما روانہ ہوگئے جہاں پوپ نے آپ سے بڑی عزت کے ساتھ ملاقات کی اورآپ کوبرکت دی
اور مسیحی ایمان پر قائم رہنے کی دعا کی۔ آپ نے چند بیش قیمت تحفے اور تصویریں دیں۔
پوپ کا آپ سے ملاقات کرنا لوگوں کی نگاہوں میں ایک عجیب بات تھی۔ اس لئے جس ہوٹل
میں آپ ٹھہر ہوئے تھے سینکڑوں فوٹوگرافر آکرآپ کی تصویر اُتارتے تھے۔ اسی طرح جب آپ
اپنے اسلامی جُبہ ودستار کے ساتھ ہوٹل سے وٹیکن کی طرف روانہ ہوئے توچند بارراستہ
ہی میں آپ کی تصویر اُتاری گئی ۔
جب آپ
روما سے واپس تشریف لائے توچند مہینوں تک اس بات پر غور کرتے رہے کہ ان کی مختلف
کلیسیاؤں میں کون سی کلیسیا زیادہ ترحضور مسیح کے قریب ہے۔ چنانچہ ایک مدت کے
غوروخوض کے بعدآپ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ انجیلی کلیسیا زیادہ مسیح کے قریب ہے
کیونکہ یہ کلیسیا صرف حضور مسیح کی ذات پر نجات کومنحصر کرتی ہے۔ لہذا آپ ۲۶ دسمبر
۱۸۹۷ء کوکلیسیائے ازبکیہ کے رئیس ڈاکٹر ہرفی صاحب مرحوم کی وساطت سے کلیسیائے مذکور
کے شریک بن گئے ۔ چنانچہ آپ خود فرماتے تھے کہ" جہاں تک مجھ کو حضور مسیح کے خادموں
اورانجیل جلیل کے مطالعہ سے معلوم ہواہے اس کا لب لباب یہی ہے کہ صرف حضور مسیح
دنیا کے نجات دہندہ ہیں اوربس۔
آپ کے مصائب
اگرمیں یہ کہوں کہ آج تک میں نے مسیحیوں میں ایک شخص
بھی ایسا نہ دیکھا جواس قدر صعوبات اورمصائب میں مبتلا ہوکر حضور مسیح کی تعریف
کرتاہو اور تکالیف پر شاکر ہوجس طرح میں نے اپنے بھائی میخائیل منصورکودیکھا تواس
میں شمہ بھر مبالغہ نہ سمجھنا چاہیے۔ جس دن سے آپ نے مسیحیت کو قبول کیا اسی دن سے
آپ ناقابلِ بیان مصائب کے ساتھ سردوچار ہوئے ۔ آپ اپنے والدین ،بھائیوں اوراپنے
خاندان کے ہرایک فرد کو اس قدر پیا کرتے تھے کہ اُن کے پاس سے جدا ہوجانا آپ کوازحد
شاق گذرتا تھا۔ چنانچہ مسیحی ہونے کے بعد جب آپ اپنے متعلقین سے جدا ہوگئے توجدائی
کے آثار ہمیشہ آپ کے بشرہ پر مجسم نظر آتے تھے۔ لیکن اپنے منجی کے اس قول کوکہ"
جوشخص اپنے باپ یا ماں یا بھائی یا بہن کومجھ سے زیادہ پیا کرتا ہے وہ میرے لائق
نہیں" یاد کرکے اطمینان کے ساتھ سب کچھ برداشت کرنے لگے۔ مجھ کوخوب یادہے کہ ایک
بار آپ نے مجھے اورچند دیگر مسیحی احباب کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھاکہ" میں
چاہتاہوں کہ جوکچھ گھر میں ہورہاہو مجھے مفصل لکھاکرو اور اس طورپر لکھا کروکہ گویا
میں اپنی آنکھوں سے تمام واقعات دیکھ رہا ہوں حتیٰ کہ چھوٹے بچوں کی گفتگو ،کھانے
پینے ۔سونے جاگنے آنے جانے ، کھیل کود ہنسی مذاق، سب کچھ لکھتے رہو" الخ۔ یہ محبت
ان کے دل میں موت تک قائم رہی۔ اپنی موت سے کچھ ہی دن پہلے مجھ کو بلا کر کہا کہ
میرے خاندان کے ہرایک شخص کو فرداً فرداً لکھوکہ" میں مسیح پر ایمان لاکراطمینان
اور سلامتی کے ساتھ رخصت ہورہا ہوں ۔ کاش کہ تم بھی ایمان لاتے اوربچ جاتے"۔۔۔۔
اسی طرح آپ کو اُن مجاہدات ورباضات کے ترک کرنے میں
بھی بے حد تکلیف ملی جو سالہاسال سے آپ کی رگ وریشہ میں پیوست ہوگئی تھیں مثلاً
پانچ وقت نمازپڑھنا، تہجد ادا کرنا، راتوں صوفیوں کے طریق پر شب بیداری کرنا۔ روزہ
رکھنا وغیرہ جن سے آپ بہت مالوف اورمانوس ہوچکے تھے لیکن کوئی شخص اگرحضور مسیح میں
نئی مخلوق بن سکتاہے تومیرے بھائی سراپا نئے بن گئے تھے۔
اس طرح بپتسمہ لینے سے قبل لوگوں کے طعن وتشنیع،ہجو
واستہزا، نفرت وحقارت آمیز سلوک کودیکھ دیکھ کر دل ہی میں گھلے جارہے تھے۔ لیکن
بپتسمہ لینے سے دوایک دن قبل ہی یہ تمام باتیں آپ کی نگاہ میں کالعدم ہوگئیں اورعلی
الاعلان سب کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کیا اورتمام مصائب کونہایت خندہ پیشانی کے
ساتھ برداشت کیا۔
ایک دن آپ کے ماموں صاحب جن کی لڑکی سے آپ کا عقدہ
ہوچکا تھا کسی کو اطلاع دئے بغیر سوہاج سے قاہرہ گئے تاکہ کسی طرح سے آپ کوقتل کریں
اوراپنی لڑکی کواس بدنامی سے جوآپ کے مسیحی ہونے کی وجہ سے ہورہی تھی بچائیں ۔
چنانچہ جب آپ قاہرہ پہنچ گئے اورآپ کا ٹھیک ٹھیک پتہ مل گیا کہ فلاں وقت نکلتے ہیں
اورفلاں راستہ سے آتے جاتے ہیں توایک رات کو درب الجینہ کے ایک کونے میں جوبطرکخانہ
اقباط کا تھولیکیہ کے قریب ہے چھپ گیا۔ جب میخائیل منصور بطرکخانہ سے نکل کر جارہا
تھا کہ اچانک ایک چھُرے سے اُن پر حملہ کیا۔ لیکن خوش قسمتی سے چھُرا لگنے سے قبل
آپ نے دیکھ لیا اور اپنی چھڑی سے اس کی کلائی میں اس زور سے ماراکہ چھُرا اس کے
ہاتھ سے گرگیا اورلپک کر اُن کو اس زور سے پکڑا لیاکہ بہت کوشش کرنے کے بعد بھی اُن
کے ہاتھ سے نہ چھوٹ سکا۔ اگرمیرے بھائی چاہتے تواُن کو براہ راست پولیس کے حوالے
کرسکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ مسیحیانہ سلوک سے پیش آنے کوبہتر
سمجھا اوراپنے ماموں سے محبت کے لہجہ میں کہنے لگے کہ اگرمیں چاہوں توآپ کو پولیس
کے ہاتھ میں دے سکتاہوں لیکن میر ے منجئی جن پر میں ایمان لاچکا ہوں اس سلوک سے منع
کرتے ہیں ۔ اس لئے آپ مجھ سے عہد کرلیں کہ اسی رات کو آپ یہاں سے سوہاج روانہ
ہونگے۔ میرے ماموں صاحب نے میرے بھائی کا شکریہ ادا کیا اورعہد کرلیاکہ وہ اسی وقت
واپس سوہاج روانہ ہونگے۔ میرے بھائی اُن کے ساتھ اسٹیشن تک گئے اور راستہ میں اُن
کو حضور کا تسلی بخش پیغام سناتے رہے۔
ہم کو
اس واقعہ کا مطلق علم نہ تھا جب میرے بھائی کا خط پہنچا تب ہم کواس کا علم ہوا۔جس
سے ہم سب بہت ہی مضطرب اورپریشان ہوئے ۔ میرے والد صاحب غصہ سے بھرگئے اور قسم
کھانے لگے کہ میرے ماموں کوگھر کے اندرگھسنے نہیں دینگے اور تہدیہ آمیز لہجہ میں
اُن سے کہاکہ" کیا تم نہیں جانتے ہوکہ وہ میرا لڑکا ہے اورمیرے جگرکا ٹکڑا ہے۔اسکے
علاوہ ممکن ہے کہ وہ ایک دن پھرمسلمان ہوجائے"۔ میرے ماموں بھی شرم کے مارے قریباً
دوسال تک ہمارے گھر نہیں آئے اور نہ ہمارے خاندان کے کسی شخص نے اُن سے تعلق رکھا۔
اسی طرح اہل سوہاج نے بھی ان کوکچھ کم لعنت ملامت نہ کی۔
میرے بھائی کے ساتھ صرف یہی ایک واقعہ نہیں ہوا بلکہ
کئی ایک ہوئے۔ اگرمیرے بھائی نڈر اور بارُعب نہ ہوتے توکب کے مارے جاتے ۔باقی رہے
تہدیہ آمیز خطوط سوان کا سلسلہ ایک طویل زمانے تک جاری رہا۔ باوجود ان تمام امور کے
میرے بھائی صاحب کبھی ہراس اورخوف کواپنے دل میں جگہ نہیں دیتے تھے اورنہ اُن پر
کچھ اثرہوتا تھا۔
آپ کا ایمان
حضور مسیح پر آپ کا ایمان نہایت مضبوط تھا اورہمیشہ
اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ اپنے ایمان کے اظہار میں آپ کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ جب
کبھی آپ کو موقع ملتا تھا توبلا تکلف اپنے ایمان کا اقرار کرتے تھے۔ خواہ قول کے
ذریعہ سے یا فعل کے ذریعہ سے یااشارہ سے غرضیکہ جس طرح ممکن ہوسکتا تھا آپ اپنے
ایمان کے اظہار سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ اورہمیشہ علانیہ اورخفیہ لوگوں کے سامنے
اورتنہائی میں اپنے یہ اشعار پڑھاکرتے تھے۔
"وکشفت لی عن نور وجھک فی الدحیٰ
فشھدت من معناک مالایوصف
وعلمت انی کنت اعمیٰ بائسا
ولاآن ابصر ماتشاء واعراف
ترجمہ: جب میں اندھیرے میں تھا اس وقت توُنے اپنے
چہرے کا نورمجھ پر چمکایا۔ اورمیں نے تیری حقیقت کی وہ باتیں دیکھیں جن کا بیان
نہیں ہوسکتا۔
میں سمجھ گیا کہ اس سے قبل میں اندھا تھا اورمحتاج۔
لیکن اب میں تیری مرضی کی تمام باتوں کودیکھتا ہوں اورسمجھتاہوں"۔
جب میں پہلی بار آپ سے ملا تو آپ سے کہا کہ آپ نے
اسلام کی فلاں فلاں خوبیوں کومسیحیت پرقربان کردیا۔ توآپ نے کہا کہ کیا میں نے
مسیحی ہونے کی وجہ سے کچھ قربان کردیاہے؟ میں نے کہا کہ بے شک۔ آپ نے کہا کہ وہ کیا
ہیں؟ میں نے کہا کہ بہت ہیں مثلاً آپ نے اپنے خاندان کوقربان کردیا۔ اپنی علمی شہرت
کوقربان کردیا۔ اگرآپ مسلمان ہوتے تواس وقت تک آپ ایک بڑے مرتبہ تک پہنچ جاتے
اوربڑی تنخواہ مل جاتی۔ وغیرہ وغيرہ۔ یہ کہہ کر میں خاموش ہوگیا۔ اس پر آپ نے کہا
کہ جوکچھ تم کہہ سکتے ہو کہو اورجوکچھ تمہاری نگاہ میں قربانی ہےسن گن ڈالو۔لیکن یہ
تمام باتیں اورقربانیاں اُس ایک ساعت کے بالمقابل کچھ قدروقیمت نہیں رکھتی ہیں جو میں حضور
مسیح کے ساتھ صرف کرتاہوں۔ میں اس جملہ کوسن کر کانپ گیا۔ اُس وقت میں اس حقیقت سے
ناآشنا تھاکہ مسیح میں سب کچھ کھونا نفع کے برابر ہے۔
اسی
طرح مجھ کوخوب یادہے کہ آپ کے مسیحی ہونے کے پہلے سال میں ہم نے آپ سے یہ خواہش کی
کہ آئندہ جب آپ ہمیں خط لکھیں تومسیحی نام کے عوض میں اپنا مسلمانی نام" محمد
منصور" لکھیں آپ نے ایسا کرنے سے مطلق انکار کیا۔تب ہم نے کہا کہ اچھا آپ صرف م۔م
لکھیں اورآپ اس سے میخائیل منصور" مراد لیں اورہم "محمدمنصور" مراد لیں۔ آپ نے کہ
کہ اس سے میرے منجئی کی بے عزتی ہوتی ہے میں کبھی نہیں چاہتا کہ میرے ایمان کے
متعلق کسی کو شک ہو۔
ایک دن
آپ میری ملاقات کے لئے اُس مکان میں آئے جوجامع ازہر کے قریب کرایہ پر لیاہوا تھا۔
اورجس میں ہمیشہ طلبائے ازہر کا جمگھٹا رہتا تھا۔ طلباآپ کے گرد بیٹھ گئے اوربہت
امور پر گفتگو ہوتی رہی۔ ان میں سے ایک نے کہاکہ ہم مسیحیوں سے بالکل علیحدہٰ رہتے
ہیں جوکچھ گفتگو ہو رہی ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہوسکتاہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ آپ
مسیح کو خدا سمجھتے ہیں؟ ابھی اس شخص نے اپنا کلام ختم نہیں کیا تھاکہ آپ کھڑے
ہوگئے اور نہایت بے باکی کے ساتھ حضور مسیح کی الوہیت کے اثبات میں لکچر دینے لگے۔
اُس وقت میں ڈرنے لگاکہ آپ کوکسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ ایک بار اورآپ خواجہ عطیہ
حنا مرحوم کے ساتھ جو مجلہ المرشد کے مدیر تھے میرے پاس اُس وقت آگئے جب کہ میرے
پاس بہت سے جامع ازہر کے فارغ التعلیم طلباء بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے جوآپ
کو پہلے سے جانتا تھا کہا کہ مسیحیت کے قبول کرنے سے آپ کو افسوس نہیں ہوتاہے؟ آپ
نے کہا کہ مجھ کو اُن وقتوں پر افسوس آتاہے جن کومسیح کے بغیر کاٹ چکاہوں۔
یہاں
پر آپ کی اُس گواہی کا لکھنا ضروری معلوم ہوتاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف کتُب
مقدسہ کا مطالعہ کرناہی آپ کے مسیحی ہونے کا باعث تھا جویہ ہے۔
"جب
خدا نے مجھ پر یہ مہربانی کی کہ بائبل مقدس میرے ہاتھ آگئی اور میں نے اس کواول سے
مطالعہ کرنا شروع کیا تومجھ پر ایسی باتیں کھل گئیں جن سے پہلے میں مطلق ناواقف
تھا۔ مثلاً مخلوقات کی پیدائش کی تاریخ اور ترتیب انبیاء کی مفصل تاریخ حالانکہ
قرآن میں اجمالی طورپر ان کا بیان ہے۔ اسی طرح بہت سی تاریخی مشکلات حل ہوگئیں
جوقرآن کے مطالعہ کے وقت پیدا ہوگئی تھیں مثلاً فرعون کے وزیر ہامان اورفرعون کا
حکم دینا کہ ایک برج بنواؤ۔ اورمقدسہ مریم کوبنت عمران کہنا اورذوالقرنین کا بیان
وغیرہ ذالک۔ لیکن یہ تمام باتیں انجیل جلیل کے اس قول کے آگے بے حقیقت ہیں کہ" خدا
نے دنیا کو ایسا پیار کیاکہ اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جوکوئی ایمان لائے ہلاک نہ
ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے"۔
اورحضور مسیح کا یہ قول جوروحانی شریعت کا نچوڑ ہے " تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا
گیا تھاکہ خون نہ کراورجوکوئی خون کریگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن میں تم
سے یہ کہتاہوں کہ جوکوئی اپنے بھائی پر غصہ ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا"۔
اور آپ کا یہ قول جوکمال اخلاق پردلالت کرتاہے کہ" تم
سن چکے ہوکہ کہا گیا تھاکہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اوراپنے دشمن سے عداوت ۔لیکن میں
تم سے کہتاہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا مانگو۔
تاکہ تم اپنے باپ کے جوآسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کوبدوں اورنیکوں
دونوں پرچمکاتا ہے اورراست بازوں اورناراستوں دونوں پر مینہ برساتاہے ۔ کیونکہ
اگرتم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سےمحبت رکھو توتمہارے لئے کیا اجر ہے"؟ اسی طرح کی
اوربہت سی آیتیں ہیں جن کے پڑھنے سے میں حضورِ مسیح پرفریفتہ ہوگیا اورسمجھ کیا کہ
حضور کے سوائے اورکوئی نجات دہندہ نہیں ہے"۔
آپ کے اخلاق واوصاف
آپ بہت ہی نرم دل تھے۔ بہت ہی درگذرکرنے والے تھے۔
ہمیشہ مصالحت کرنے میں کوشش کرتے تھے۔ سب کے لئے ان کے دل میں محبت جوش مارتی تھی۔
ہمیشہ خنداں وشادماں رہا کرتے تھے۔ آپ بہت ہی کم غصہ میں آتے تھے اوروہ بھی
چندلمحوں تک۔ آپ کی گفتگو خندہ آور ہوتی تھی اور سننے والوں کے دل میں سرایت کرتی
تھی۔اس لئے سب لوگ آپ کو پیارکرتے تھے۔ جب کبھی آپ قہوہ خانہ میں جابیٹھتے تھے توآپ
کے چاروں طرف آپ کے احباب کا جمگھٹا رہتا تھا۔ آپ مصر کے جس راستہ سے نکلتے تھے
وہاں کے لوگ آپ کوسلام کرتے تھے اورمحبت کااظہار کرتے تھے۔ صرف مسیحی ہی ایسا نہیں
کرتے تھے بلکہ مسلمان بھی آپ بہت ہی ذی وقار تھے اورآپ کے چہرے سے رُعب ترواش کرتا
تھا ۔پہلی ملاقات ہی میں لوگ آپ کے احترام پر مجبور ہوجاتے تھے۔ آپ بہت ہی سخی تھے
اورفقراء پر پیوستہ نظرِ شفقت رکھا کرتے تھے۔ اگرآپ کومعلوم ہوجاتاکہ فلاں شخص
محتاج ہے تواُس کی احتیاج سے زیادہ دیا کرتے تھے۔ باوجود یکہ آپ خود غریب تھے توبھی
بیواؤں اوریتیموں کی سالوں تک پرورش کرتے رہے ۔ اوراپنے فقر کی نسبت کہا کرتے تھے
کہ میں مسیح میں دولت مند ہوں۔ آپ کسی کی مساعدت سے نہ توذاتی طورپر اورنہ ہی سفارش
کے طورپر انکار کرتے تھے۔
آپ کی جرات اوردلیری کا بیان کرچکے ہیں کہ وصول حق سے
کوئی چیز آپ کو نہیں روک سکتی تھی اورانہ انجیل جلیل کے سنانے میں کوئی خطرہ محسوس
کرتے تھے۔ اکثرخطرناک مقامات میں آپ اس طرح کھڑے رہتے تھے کہ ایک چٹان کا ٹکڑا
معلوم ہوتے تھے۔
ایک
رات آپ مجلس ازبکیہ میں تشریف لے گئے جہاں کم وبیش سات سواشخاص کا اجتماع تھا جس
میں شہر کے بڑے بڑے عہدیدار اوراشرارالناس شامل تھے جوچلّا چلّا کرکہتے تھے کہ آج
ہم اس کو قتل کئےبغیر نہ جائینگے۔ مشنری یہ سن کر بہت ہی گھبرائے اوراُن سے کہنے
لگے کہ پشت کے دروازہ سے آپ نکل جائیں۔ لیکن آپ نے انکار کیا۔ اورمنبر(پلپٹ) کے پاس
آکر کھڑے ہوئے اوراپنا سینہ سامنے کرکے باآواز بلند کہنے لگے کہ" جوشخص مجھ کوقتل
کرنا چاہتاہے وہ سامنے آئے کیونکہ میں اُس سے بڑھ کر نہیں ہوں جس نے میری خاطر اپنی
جان دی ہے"۔میرے قلم میں طاقت نہیں کہ میں اُس ہولناک وقت کا پورا بیان لکھوں۔ ان
کی اس دلیرانہ حرکت نے تمام شریروں کوخاموش کردیا اور یوں معلوم ہوتاتھاکہ گویا اُن
کے منہ میں زبان نہیں ہے اور سب خاموش ہوبیٹھے جب لوگ نکلنے لگے آپ بھی اُن کے ساتھ
نکلے اوراُن ہی میں چند اشخاص نے آپ کو نہایت سکون اور اطمینان کے ساتھ گھر تک
پہنچایا۔
جب کہ جریدہ اللواء نے مسیحیت کی تبلیغ اور مسیحی
مبلغین کے برخلاف حکومت کوجبروتشدد کا مشورہ دیا توآپ تنہا اللوا کے دفتر میں گئے
اور مصطفیٰ کامل پاشا مرحوم سے ملاقات کی اوراُن سے درخواست کی کہ اللواء کے حملوں
کا انسداد کریں جس کے جواب میں مصطفیٰ کامل پاشا نے کہا کہ" اول ہم اپنے قلم سے
تمہارا مقابلہ کرینگے۔ اس سے فائدہ نہ ہوا توپھراپنی بندوقوں اورلوہوں سے کرینگے"۔
اس کے جواب میں میرے بھائی نے کہاکہ" اس پربھی آپ ہمیں مسیحیت کی تبلیغ سے خاموش نہ
کرسکینگے۔ ہم آپ کی بندوقوں اورلوہوں کا مقابلہ مسیحیانہ محبت سے کرینگے اوریقیناً
آپ پر غالب آئینگے"۔ یہ سن کر مصطفیٰ کامل پاشا کا غصہ جاتا رہا۔ اورکہنے لگے کہ"
ہم جوکچھ چاہتے ہیں یہ ہے کہ آپ لوگ ہمارے مذہبی عواطف کومجروح نہ کریں " میرے
بھائی نے کہا کہ" حضور مسیح بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ اگرہم آپ کے مذہبی عواطف
کومجروح نہ کریں"۔ میرے بھائی نے کہا کہ" حضور مسیح بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں اگرہم
آپ کے مذہبی عواطف کومجروح کریں توکس طرح آپ کو حضور مسیح کے پاس لاسکینگے؟ اس
گفتگو کے بعد فریقین میں مصالحت ہوئی۔
اسی
طرح ایک بار آپ نے شیخ الازہر اورمفتی دیارِ مصر کوایک خط لکھا کہ آپ اپنے عالموں
کوگالی گلوچ دینے سے روک دیں۔ ہم تبلیغ سے باز نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ تبلیغ
مسیحیت کی مقدس واجبات سے ہے اس خط کے آخر میں آپ نے میخائيل منصور کے نام سے دستخط
کیاتھا۔ غرض کہ آپ کی شجاعت کے واقعات اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگرہم ان سب کولکھ
دیں توایک ضيغم کتاب بن جائیگی لہذا اسی پر بس کیا جاتاہے۔
آپ کا کام میں مشغول ہوجانا
جب آپ مسیحی ہوئے تواول رومن کیتھولک مدارس میں تعلیم
دینے پرمامور ہوئے۔ پھراسیوط کے کالج میں پروفیسری کے عہدہ پر تبدیل ہوئے۔ چند
مہینوں کے بعد پھرآپ مصر میں بلائے گئے اورایک مدُت تک جزویت کے کالج میں معلم رہے
اورساتھ ہی امریکن مشنریوں کوعربی سکھاتے رہے۔ ایک دن آپ ڈاکٹرہنٹ صاحب کواشعیانی
کی کتاب پڑھا رہے تھے۔ جب ان آیات پر پہنچ گئے کہ:
اُس وقت میں نے خداوند کی آواز سنی جوبولاکہ میں کس
کوبھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائيگا؟ تب میں بولا میں حاضر ہوں مجھے بھیج اوراس
نے فرمایاکہ جا اور ان لوگوں کوکہہ تم سناکرو پر سمجھو نہیں۔ تم دیکھا کروپر بوجھو
نہیں"(۶: ۸، ۹)۔ توفکر میں ڈوب گئے اور پھرڈاکٹر صاحب سے کہنے لگے کہ" میں محسوس
کرتاہوں کہ خدا مجھ سے کہہ رہاہے کہ میں اپنے بھائی مسلمانوں میں جاکر بشارت دوں
اور خدا مجھے بھیجنا چاہتاہے"۔ اس کے سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کے دل پر بہت اثرا ہوا
اورفی الفور گھٹنے ٹیک کردونوں دُعا میں جھک گئے تاکہ خدا سے مشورہ لیں دعا کے بعد
اُن کو معلوم ہوا کہ یہ بات خدا کی طرف سے اُن کے دل میں القا کی گئی ۔ اوراسی ہفتہ
میں ازبکیہ کے گرجا میں منادی شروع کی ابتداءً توبہت کم لوگ آئے لیکن رفتہ رفتہ
سینکڑوں مسلمانوں جن میں بڑے بڑے عالم بھی تھے آنے لگے اورآپ سے مباحثہ کیا کرتے
تھے ۔ آپ نہایت مدلل طورپر لیکن کمال محبت کے ساتھ ان کے جواب دیتے جاتے تھے ۔ آپ
کی دلائل قرآن واحادیث ودیگر مستند کتب پر مبنی ہوتی تھیں جن کوسن کر مسلمان دنگ رہ
جاتے تھے۔
ایک دن ایک عالم نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ میخائیل
منصور کے بھائی ہیں؟ میں نے کہا کہ جی ہاں تب اُنہو ں نے کہا کہ آپ کے بھائی یکتا
شخص ہیں۔ زمانہ اس قسم کے اشخاص بار بار پیدا نہیں کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ آپ
نے کہا کہ جب میں نے اول بارآپ کے بھائی کووعظ کرتے سنا تواُنہوں نے اس کثرت سے
مطول کتابوں کے حوالے دہرائے کہ میں نے سمجھا کہ یہ سب جھوٹے حوالے ہیں کیونکہ یہ
بعید ہے کہ ایک شخص کو اس قدر مختلف اورمطول کتابوں کے حوالے ازبرہوں۔تب دوسری رات
کومیں نے یہ ارادہ کیاکہ اُن کے تمام حوالے لکھ لونگا اورمقابلہ کرکے دیکھ لونگا کہ
کہاں تک ان میں صداقت ہے چنانچہ دوسری رات کے تمام حوالے میں نے لکھ لئے جوبارہ
مطول اورمستند کتابوں کے تھے۔ تب اس کے دوسرے دن میں جامع ازہر کے کتب خانہ میں گیا
اوراُن کتابوں کوجن کے اُنہوں نے حوالے دئے تھے نکالا جب حوالوں کا مقابلہ کیا
تومعلوم ہواکہ حرف بحرف درست اورتمام حوالے صحیح ہیں ۔ تب میں ان کی علمیت کا قائل
ہوا۔میرے دوست شیخ محمد المنوفی صاحب نے جوجامع ازہر کے عالموں میں سے ہیں ایک دن
مجھ سے کہا کہ ایک رات کو میں اورشیخ علی آپ کے بھائی کے پاس گئے تاکہ اُن کے ساتھ
کچھ گفتگو کریں لیکن ہمیں معلوم ہواکہ وہ بیس عالموں کے مساوی ہیں۔ اس لئے ہم
مباحثہ کرنے سے باز رہے۔
آپ کے
وہ مباحثے بہت ہی مشہور ہیں جوشیخ زکی الدین رئیس جامع مکارم اخلاق اسلامیہ
اورعلامہ خیرت بیگ راضی المحامی شرعی اور ڈاکٹر محمود صدقی اورشیخ احمد علی الملیجی
اورشیخ علی المیجی جیسے یکتائے روزگار عالموں کے ساتھ مسلسل چند مہینوں تک ہوتے
رہے۔ اگرچہ میرے بھائی کے جوابات نہایت مدلل اورمسکت ہوتے تھے جن کوسن کر بے تاب
ہوجاتے تھے لیکن اُنہوں نے کوئی بات ایسی ظاہر نہیں کی جس کوہم عداوت پر حمل کرسکیں
بلکہ روز بروز میرے بھائی کی محبت اُن کے دلوں میں جاگزیں ہوتی جاتی تھی۔ان کے
علاوہ جوشخص بھی ان سے مباحثہ کرتا تھا وہ ان کے دامِ محبت میں گرفتار ہوجاتا تھا
اورنہایت عزت واحترام کے ساتھ پیش آتا تھا۔
آپ کے
مباحثہ کرنے کاطرزنہایت طرب انگیز ہوتا تھا۔آپ کے الفاظ نہایت شیریں اورجملے نہایت
پُر تمکین ہوتے تھے۔ جا بجا منطقیانہ براہین اورفلسفیانہ استدلالات سے اپنی تقریر
کوایسے آراستہ کرتے تھے کہ سننے والا بے اختیار مرحبا وجزاک اللہ پکاراٹھتا تھا۔
اکثر ذیل کے مسائل پر لوگ آپ سے مباحثہ کیا کرتے تھے۔
کتب مقدسہ کی صحت، الوہیت مسیح کے اثبات، تجسم، نجات
کفارہ ، کا بھید۔
شروع شروع میں آپ اسلام کے ایسے مسائل پر اعتراضات
کرتے تھے جن کو سن کر مسلمان ہیجان میں آکر بے حد غصے ہوجایا کرتے تھے اوربسا اوقات
فتنہ وفساد کا اندیشہ ہوجاتا تھا اورحکومت کوبھی پولیس کےانتظام کرنے میں پریشانی
لاحق ہوتی تھی۔ اوراکثر بجائے روحانی فائدہ کے نقصان ہوتا تھا۔ لیکن کافی تجربہ کے
بعدآپ نے اپنے طرز کوبدل دیا یعنی بجائے اعتراض کرنے کے مسیحیت کی خوبیوں اورکسی نہ
کسی مشکل مسئلہ کولوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے اورمدافعانہ طورپر لوگوں کے اعتراضات
کے جواب دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپ نے اس روش کی تبدیلی کے متعلق مجلہ بشائر السلام
میں ایک مضمون شائع کیا جس کا مفاد یہ ہے کہ " میں نے اپنے تجربہ سے یہ بات معلوم
کرلی کہ مذہبی مسائل اورشخصیات کو معرضِ گفتگو میں لا نا بجائے فائدہ کے نقصان
پہنچاتاہے۔ ہم کسی شخص کوکماکر مسیح کے پاس نہیں لاسکتے ہیں مگر محبت، الفت
اورقربانی کے روز سے روحوں کے کمانے میں وہی وسائل ازبس مفید ہیں جن کوخود حضورِ
مسیح نے استعمال فرمایا تھا"۔
یہاں تک توہم نے آپ کے مباحثہ کا بیان کیا۔ آپ کے
روحانی وعظوں کی یہ کیفیت تھی کہ سینکڑوں گم گشتگال راہ پر آگئے۔ جن کوسن کربیسیوں
کے آنسوجاری ہوجاتے تھے۔ سامعین کے دل میں عالمِ ملکوت کا شوق پیدا ہوجاتا تھا۔ لوگ
حضورِ مسیح کی قربت ڈھونڈھنے لگ جاتے تھے۔ آپ کے وعظوں کی دل پذیری کی ایک دلیل یہ
ہے کہ لوگ ان کو ازوال تاآخرازبرکیا کرتے تھے۔اورمصر کی اطراف واکناف کے گرجوں میں
سنائی دیتے تھے۔ اگرچہ وہ خود مرگئے لیکن ان کے وعظ آج تک منبروں پرسے زندہ سنائی
دیتے ہیں۔ ان کے وعظوں کے جاذب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی بنیاد کلمتہ اللہ تھے۔
حالانکہ آپ زبان انگریزی سے ناواقف تھے جس میں ہزاروں وعظ کی کتابیں موجود ہیں۔ اس
پر بھی آپ کے وعظ میں جواثر اورکشش تھی وہ کسی انگریزی دان کے وعظ میں بہت کم پائی
جاتی تھی۔اسی طرح آپ کے دعائیہ الفاظ نہایت دلکش ۔ سادہ مگربےحد تاثر ہوتے تھے۔ آپ
اکثریوں دعا کرتے تھے کہ:
"اے خدا توجویہ چاہتاہے کہ تمام انسان ہلاکت سے بچیں
اورسب لوگ تیرے حضور میں پہنچیں تواپنا نور مسلمانوں کے دلوں میں چمکا اوراپنے بھید
اُن پر ظاہر کر اوراُن کو چشم معرفت میں عطا فرماتاہے کہ وہ تیرے غیرت مند بندے بن
جائیں اورتیرے نام کے پیارکرنے والے بن جائیں اورانجیل پر اپنی جان نثار کریں اوراس
پرخوش ہوں۔ سیدنا عیسیٰ مسیح کے نام سے آمین"۔
آپ
حضور مسیح میں اس قدر محومستغفرق رہتے تھے کہ جہاں کہیں آپ ہوں وہاں حضور کے زندہ
گواہ کی حیثیت سے رہتے تھے۔ ابتداءً آپ ہفتے میں دودن ایک دن ازبکیہ میں اوردوسرادن
قللی میں مسلمانوں میں منادی کرنے کے لئے جایا کرتے تھے اورپھر تیسرا دن ایک تیسری
جگہ ضرنفش میں جانے لگے ۔ اس کے علاوہ آپ کسی نہ کسی اخبار یارسالہ میں متواتر
مضامین لکھا کرتے تھے۔ نیزبیرونی اطراف کی دعوت پرآپ اکثر مختلف کلیسیاؤں میں وعظ
کرنے کی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے نیز کبھی کبھی کوئی نہ کوئی رسالہ یا کتاب
بھی لکھا کرتے تھے۔ نیز مبشرین کے مدرسہ میں اسلامیات کے درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے
ان مشاغل سے واضح ہوجاتاہے کہ آپ نے اپنے آپ کوحضور مسیح کی خدمت کے لئے وقف کیا
تھا۔
ممکن
ہے کہ بہت سی باتیں میرے ذہن سے جاتی رہی ہوں۔ لیکن ایک بات میرے ذہن سے کبھی نہ
جائیگی وہ یہ کہ جب پہلی بار میں نے آپ سے انجیل مانگی توآپ کاچہرہ اس قدرچمک گیا
اورآپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اورمجھ سے کہنے لگے کہ
برادرجان! میں چند سالوں سے خدا سے روروکر یہ دعا مانگ رہا تھا کہ تم کو انجیل جلیل
کے مطالعہ کرنے کی توفیق عنایت کرے تاکہ تم اسکو پڑھ کر نجات حاصل کرو۔
سچ تویہ ہے کہ ابتداءً میں آپ کے مسیحی ہوجانے کواپنے
لئے اوراپنے خاندان کے لئے باعثِ صدہزار ہاننگ اورنفرین سمجھتا تھا۔ اکثر میں عزات
گزیں مشائخ کے پاس جاکر استدعا کرتا تھاکہ حق سبحانہ وتعالیٰ آپ کوپھر مسلمانی کی
طرف راجع کرے۔ اوربعض وقت یہ فاسد خیال بھی میرے دل میں آتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح
آپ کوقتل کرواکر اپنے خاندان کی ذلت کوآپ کے خون سے دھوڈالوں۔ لیکن جب میں نے آپ کو
مسیحیت پرایک مضبوط چٹان کی طرح قائم پایا اورمسیح کے نام پر ہرقسم کی تکالیف
کوخوشی کے ساتھ برداشت کرتے دیکھا۔ تومجھ کویقین ہوگیاکہ آپ صرف سچائی کی خاطر اس
قدر الام اورمصائب برداشت کررہے ہیں اوراگر مسیحی مذہب میں صداقت نہ ہوتی توآپ ایک
لمحہ بھی وہاں نہ ٹھیرتے۔ اس لئے میں نے آپ سے انجیل طلب کی تاکہ اس نعمت عظمیٰ سے
میں محروم نہ رہوں۔
میں
خدا کا لاکھ لاکھ شکر کرتاہوں کہ میری طرح سینکڑوں میرے بھائی کے نیک نمونہ
اورمسیحانہ زندگی کی وجہ سے حضور مسیح کے فدا کاروجان نثار بن گئے۔
آپ کی بیماری اورموت
ایک طویل عرصہ سے آپ زلال[3] کے عارضہ میں مبتلا تھے
لیکن زیادہ مضبوط اورطاقتور ہونے کی وجہ سے نہ توآپ اس کومحسوس کرتےتھے اورنہ
بیماری آپ کو مغلوب کرسکتی تھی لہذا آپ اپنی طاقت کے زعم پر اس کے علاج سے غافل رہے
اُدھر بیماری آہستہ آہستہ اپنا کام کررہی تھی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ یکایک مادہ
زلالیہ (البیومن) کثرت کے ساتھ خارج ہونے لگا اورساتھ ہی پیشاب کا آنا بالکل بند
ہوگیا جس کی وجہ سے آپ کے تمام جسم میں زہر پھیل گیا اوربے حد تگ ودو اور تجربہ
کارڈاکٹروں کے علاج ومعالجہ کے باوجود آپ اچھے نہ ہوسکے بمصدق
واذالمیتہ انشبت اظفارھا
الفیت کل تمیمتہ لاتنفع
ترجمہ: یعنی" جب موت کسی کواپنے پنجوں سے پکڑتی ہے
توکسی قسم کا تعویذ فائدہ نہیں دیتا"۔
اگرچہ
آپ صاحب فراش ہوگئے تھے اورموت کی انتظاری میں لمحے گن رہے تھے لیکن حضور مسیح کی
محبت اورشفقت آپ کےدل میں اس قدر جاگزیں ہوئی تھی کہ ایک لمحہ بھی ان کی یاد سے
غافل نہ تھے۔ ہروقت انکی پُرمحبت قربانی کا ذکرآپ کی زبان پرجاری تھا۔ کامل دودن تک
آپ اس جملہ کودہراتے رہے کہ" تم نے فضل سے نجات پائی" اورہربار اس کے بعد یہ کہا
کرتے تھے کہ " میں حضور مسیح کا شکر کرتاہوں کہ اُنہوں نے مجھ کو اپنے فضل سے نجات
دی"۔
ایک
بار میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کتب مطہرہ میں سے کس مقام کوپسند کرتے ہیں تاکہ آپ
کے لئے پڑھوں توآپ نے کہا کہ اس زبور کوجس میں یہ لکھا ہے کہ" تیری حیات نے مجھے
موت کے گڑھے سے بچایا"۔ ایک بار پادری شنودہ حنا صاحب عبادت کے لئے آگئے اور آپ سے
کہنے لگے کہ" کیا آپ موت سے ڈرتے ہیں؟" توآپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ
" میں کس طرح ڈرسکتاہوں جب کہ حضور کا دہنا ہاتھ مجھے تھامے ہوئے ہے" پھر تین بار
بلند آواز کے ساتھ اُس جملہ کودہراتے رہے" کہ مجھے کچھ خوف نہیں کیونکہ حضورمجھ سے
پہلے قبر میں گئے اور اس کے تمام خطرات کوزائل کیا"آپ کے راضی بہ قضا ہونے اورپُورے
طور سے اپنے آپ کوحضور مسیح کے ہاتھ میں دیدینے کی کافی دلیل یہ ہے کہ آپ کی اہلیہ
کی ایک قریب رشتہ دار عبادت کے لئے گرجاجانے لگی جب گھر سے نکلنے والی تھی توآپ نے
اس سے کہاکہ کہا ں جاتی ہے اوروہ بولی کہ گرجا کوعبادت کے لئے۔ آپ نے کہا کہ وہاں
کیا کہیگی۔ کہا کہ میں یہ کہونگی کہ" اے خدا خواجہ میخائیل کوشفا بخش دے"۔تب آپ نے
کہا کہ یہ مت کہو کیونکہ تمہاری دعا ان کی مرضی کے برخلاف ہے بلکہ یوں کہو کہ"
الہٰی تواپنی مرضی کومیخائیل کے متعلق پوری کر" ۔ پھرآپ میری طرف متوجہ ہوئے
اورکہنے لگے کہ" کیا تم سمجھ گئے"؟
اس قسم
کے بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ہمہ تن الہٰیات میں مستغرق تھے
اورآپ کا دل حضور مسیح سے مملو تھا خدا ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت
دے۔
المختصر آپ کی جدائی کی گھڑی پہنچ گئی یہ بدھ کی شام کے پانچ بجے کا وقت تھاجوکہ
۲۹مئی ۱۹۱۸ء کے مطابق ہے۔ آپ کی موت کی خبربجلی کی طرح تمام شہر میں پہنچ گئی تعزیہ
داروں سے گھر پھٹا جارہا تھا۔ ساری رات آپ کی اہلیہ محترمہ کے ساتھ اس اختلاف
پرمباحثہ رہا کہ آپ کوکس قبرستان میں دفن کیا جائے۔ کیونکہ آپ یہ چاہتی تھیں کہ
رومن کیتھولک قبرستان میں دفن کئے جائیں۔ چونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس موقع پر
نزاع واقعہ ہواس لئے تمام مشنری صاحبان اور کلیسیائے ازبکیہ کے پاسٹر صاحب اس پر
متفق ہوئے کہ وہی کروجواُن کی اہلیہ کی مرضی ہو۔جعمرات کی صبح کوشائقین عظیم الشان
جماعت کے ساتھ جن میں ہر فرقہ کے مسیحیوں کے علاوہ سینکڑوں مسلمان بھی شامل تھے آپ
کا جنازہ قبرستان کو لے جایا گیا۔ اورآپ کوعالم جوانی میں سپرد خاک کیا گیا اورخدا
کی مرضی پوری ہوئی۔
چاروں
طرف سے اس کثرت سے تلغراف اورتعزیت نامے وصول ہوئے جن کی تعداد سینکڑوں سے بھی
زیادہ تھی۔ اس غم میں خوشی کی بات یہ تھی کہ ان تلغرافوں اورتعزیت ناموں میں جلیل
القدر اور فاضل مسلمانوں کا حصہ کچھ کم نہ تھا۔
کامل
منصور
آپ کے متعلق چند مشہور اشخاص کی آراء
(۱)
عالی جناب شیخ مستری صلیب الدویری الہای میں بعنوان
موت العالم موت العالَم
لکھتے ہیں کہ:
"شیخ
میخائیل منصور مرگئے جواپنے وقت کے یکتا عالم، بے مثل، محقق، بے نظیر، مدقق
،اوراعلیٰ درجہ کے مباحث اورولولہ انگیز خطیب (لکچرا) سحر نگار شاعر اورمتحبر کاتب
تھے"۔
"شیخ
میخائیل منصور مرگئے جنہوں نے کامل بیس سال تک بحیثیت ایک واعظ۔ لیڈر، مباحث اپنی
قوم کی خدمت کی"۔
"شیخ
میخائیل منصور مرگئے جومنبروں(پلپٹس) کے مالک، عالموں کے ہیرو، مباحثین کے پیشرو
اورمتکلمین کے سرادر تھے"۔
"شیخ
میخائیل منصور مرگئے جنہوں نے مسیحیت کی خاطر طرح طرح کی تکالیف ومصائب برداشت کیں
اوربغیر کسی خوف وخطر کے اپنے ایمان کااظہار کیا۔ اوراپنے والدین کی جدائی ۔ احباب
کی دشمنی خویش واقارب کی بدسلوکی اورحاکموں کے جبر اور بدسلوکی کومطلق قابل التفات
نہ سمجھا"۔
"شیخ
میخائیل منصور قریباً ایک صدی کی چوتھائی تک زندہ رہے اس اثنا میں حق کے اعلان سے
ہرگز نہ جھجکے۔ اپنی گفتگو اورمباحثات سے دین انجیل جلیل کا اعلان کرتے رہے۔ اپنی
دلائل کے زوراوربراہین کی قوت اوراطلاع کی دسعت، الفاظ کی حلاوت، اورحسن سلوک
اوربردارانہ محبت کی وجہ سے علماء ازہر کے سینکڑوں کواپنا شیدا بنایا تھا"۔
"شیخ
میخائیل منصور نے قریباً ایک صدی کی چوتھائی تک اس دارفانی میں زندگی بسرکی لیکن اس
طرح کہ وہ اپنے باب میں یکتا تھے۔ اپنی یکتائی میں تمام اوصاف کے مجموعہ تھے۔ ان کی
یکتا شخصیت میں بڑی بڑی شخصیتیں نہاں تھیں اوراپنی ذات کے لحاظ سے وہ ایک کامل فریق
تھے۔ اُن کے کام کے لحاظ سے کوئی اورشخص ان کی مثل نہیں بن سکتا اورنہ کوئی اورشخص
ان کی طرح اپنے کام پر مقدرت رکھ سکتاہے اورنہ ان کی جرات اورحکمت کے درجہ تک کوئی
اورپہنچ سکتا ہے۔ آپ کی سخت گیری میں کامل محبت تھی۔ اپنے مناظر کو نہ صرف مغلوب
کرتے تھے بلکہ ان کے دل میں اپنی محبت بیٹھادیتے تھے جس کی وجہ سے وہ آپ کے احترام
کرنے پرمجبور ہوجاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے آگے آپ شیر کی طرح کھڑے ہوجاتے تھے
وہ آپ کی دوستی کادم بھرتے تھے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جوبنی نوع انسان میں بہت کم پائے
جاتے ہیں۔ اس لئے اگرہم کہیں کہ شیخ میخائیل منصور مرے نہیں بلکہ اب تک زندہ ہیں
توکچھ تعجب نہیں"۔
(۲)
کینن گارڈنر صاحب مجلہ الشرق والغرب میں لکھتے ہیں
کہ:
ہمارا راسلہ مکمل ہوکر مطیع کوجاہی رہا تھا کہ یکایک
ہمارے پیارے اُستاد کی موت کی خبر دہشت اثر پہنچ گئی اس لئے صحبت امروزہ میں آپ کے
ماتم کا حق ویسا ادا نہیں کرسکتے ہیں جیساکہ ہم پر فرض ہے لیکن اپنے دلی رنج
کےاظہار سے بھی باز نہیں رہ سکتے۔
جب میں اس اکیس سال کے عرصہ میں پہلی دفعہ مصرآگیا
تواس بے مثل عالم کو عربی زبان کے لئے اپنا استاد منتخب کیا۔ میرے اس انتخاب کودیکھ
کر میرے ایک شریک کار نے کہا کہ تم بہت ہی خوش قسمت ہوکر تمہیں ایسا اُستاد مل گیا۔
جب میں اپنے اسباق پرغورکرتاہوں تووہ میرے ذہن میں ایسے تازے ہیں کہ گویا کل کے
پڑھے ہوئے ہیں۔ میں اپنے استاد کی صراحت نطق اورصحت تلفظ اورحسن قرات پر جب خیال
کرتاہوں تو حیرت میں آجاتا ہوں آپ کو غلط تلفظ اورغلط عبارت پڑھنے سے بے حد نفرت
تھی۔ آپ بے حد برداشت کے مالک تھے۔ طریق تعلیم سے پورے واقف تھے۔ اجانب کے پڑھانے
میں صحت کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ چونکہ آپ انگریزی نہیں جانتے تھے اس لئے روزاول
سے آپ کے شاگرد آپ سے عربی میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے تھے گفتگو ان مسائل پر ہوتی
تھی جوانجیل جلیل اورنماز کی کتاب سے برآمد ہوتے تھے کیونکہ یہی دوکتابیں ابتدائی
درس کے لئے مقرر تھیں ۔ اسی زمانہ سے مجھ میں اورآپ میں محبت اورصداقت کی بنیاد
مضبوط ہوگئی جس کوموت نہیں مٹاسکتی ہے۔
میں آپ کی موت سے چند ہی دن پہلے ایک خاص بات پرمشورہ
لینے کی غرض سے آپ کی ملاقات کے لئے گیا تھا اس وقت آپ کے چہرے کودیکھ کر مجھ کو
یقین ہوگیا تھاکہ یہ مرض آپ کو لے ہی چھوڑیگا"۔
ولمہ وکمہ لیلتہ عارائت سنا
مصباحہ فی الدحی بھیمتہ طلبا
والوارکم جت استجیٰ محاسنہا
والان قداظلمت والنور قدھربا
ترجمہ : کتنی اور کتنی ہی راتوں کے اندھیرے میں آپ کے
چہرے کی روشنی میں ،میں اپنے مطلب کوپالیتا تھا۔ لیکن وہ گھر کہ سراپا اجالا تھا اب
اندھیرا ہے کیونکہ اس کی روشنی اب جاتی رہی ہے"۔
ہاں
استاد توچل بسے لیکن اپنے پیچھے ایسی خلیج چھوڑگئے جس کا بھرنا ازبس مشکل ہے۔
آپ ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے وہیں جوان ہوئے۔
وہیں تعلیم پائی۔ وہیں قرآن کوحفظ کرنا۔ وہیں وحدیث کے ماہر ہوئے اوروہیں علم فقہ
کے ماہر ہوئے۔ جب آپ جامع از ہر سے فارغ ہوکرنکلے توآپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی کتاب
آگئی ۔ آپ اُس کے مطالعہ کرنے میں ہمہ تن مصروف رہے جس کا اثر یہ ہوا کہ کتاب کے
ختم ہونے سے قبل آپ مسیحی ہوگئے اور آپ کویقین ہوگیاکہ یہ کہنا کہ مسیحیوں نے انجیل
میں تحریف کی ہے ایک بڑی تہمت ہے اوریہ کہ صرف یہی ایک چھوٹی سی کتاب ہے جولوگوں
کو" راہ ،حق اورزندگی " کی طرف بلاتی ہے۔
اس ملک
میں متنصرین پرجوبلائیں نازل ہوتی ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اس پر بھی مرحوم نے
اپنی ضمیر کی آواز پرلیبک کہا اوراس کا مطلق خیال نہیں کیا کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے
یا مجھ سے کیا سلوک کرینگے اس کے کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آپ کے دشمنوں نے آپ
پر کیسے کیسے اتہامات لگائے لیکن آپ نے ان میں سے ایک کوبھی قابل التفات نہ سمجھا
بلکہ مسیحی ہوگئے اورمسیحی رہے اورایک مسیحی خاتون سے نکاح کیا اوراپنی لڑکی
کومسیحیت کی تعلیم دی اوراپنے بھائیوں میں سے ایک بھائی کے مسیحی ہونے کا وسیلہ بنے
اوربلاآخر مسیحیت میں فوت ہوئے اورمسیحیوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اورمسیحیوں کے
قبرستان میں دفن ہوئے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر یہ بات ہے کہ اس بے مثل عالم نے آخری
وقت میں اپنے ایمان کا اورحضورمسیح پر اعتماد کا جواظہار کیا وہ قابل یادگار
اورایمان داروں کے لئے باعث صدہاہزارہا اطمینان ہے۔
ہم
کہاں تک آپ کے اوصاف گنائیں۔ آپ اعلیٰ درجہ کے عالم ،اعلیٰ درجہ کے متکلم۔ اعلیٰ
درجہ کے مباحث۔ اعلیٰ درجہ کے واعظ اوراعلیٰ درجہ کے اہل قلم تھے۔ کاشکہ آپ کے تمام
مواعظ اورمضامین کی حفاظت کی جاتی توآج ایک بے مثل علمی ذخیرہ ہمارے ہاتھ میں موجود
ہوتا۔ لیکن بے حد افسوس ہے کہ آپ کے اکثر مضامین ضائع ہوچکے ہیں۔
اے میرے محبوب استاد اورپیارے دوست خدا آپ کا حافظ۔آپ
خوب لڑائی لڑچکے اورکوشش کی انتہا تک پہنچ چکے۔ آپ نے اس فتحمندی کے تاج کوحاصل کیا
جوآپ کے لئے تیارکیا گیا وہ خدا جواپنے ایمان دار بندوں کوتاج پہناتاہے آپ کے نقش
قدم پر ہمیں چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے بعض مطبوعہ مضامین
مصر حضور مسیح کے لئے
اے خدا ہم تیری تعریف کرتے ہیں کہ تونے اپنے انوار
عالم پرچمکائے اوراپنے اسرار ظاہر کئے۔ بعض کوانبیا بنایا اوربعض کواصفیا اوربعض پر
اپنے معارف ظاہر کئے اوربعض پراپنی نعمتیں نازل کیں۔ انسان کا تمدنی اورمذہبی اولین
فرض یہ ہے کہ تمام انسانوں سےمحبت رکھنے خصوصاً اپنے اہل وطن کے ساتھ جس کی زمین پر
ہم پرورش پاتے اورجس کے آسمان کے سایہ تلے سکونت رکھتے ہیں۔مصر ہمارا وہ محبوب وطن
ہے جس میں ہم پیدا ہوئے اورجس میں ہم پنہاں ہونگے۔ پس تجھے دعوت الی الحق دینے سے
بڑھ کر کوئی بیش قیمت تحفہ نہیں اورصراط المستقیم پرہدایت کرنے سے بڑھ کر کوئی محبت
نہیں کیونکہ صراط المستقیم پر چلنے والوں کے ساتھ بڑے بڑے وعدے ہیں وہ دنیا میں
کامیاب رہیں گے اورآخرت میں سرفراز ہونگے۔ اس لئے اے مصر! میں تجھے ایک بات کی طرفہ
توجہ دلاتاہوں جوتیری مضرات کودورُ کردیگی اورمنافع کوتیرے پاس کھینچ لائیگی
اورتجھے ایسے سعادت کے درجہ تک پہنچائیگی جس کوزبان بیان نہیں کرسکتی اور نہ قلم اس
کا تصور کرسکتاہے۔ کیونکہ وہ بات سراسر وجدانی ہے جس کودل کے سوائے اورکوئی چیز
دریافت نہیں کرسکتی ہے۔
وہ بات
یہ ہے کہ" حضور مسیح ہی وہ بخرہ ہیں جس کوکوئی چیز تجھ سے نہیں چھین سکتی ہے"۔ کسی
فرد یاجماعت میں یہ طاقت نہیں کہ کسی حالت میں ایماندار دل سے ان کوعلیحدہ کرسکے۔
ممکن ہے کہ مال وغنیمت کو چورچراسکے یا قلعوں کوباغي سرکریں یاروح کوگنہگار برباد
کریں لیکن اس بخرہ سعادت بہرہ کوکوئی طاقت علیحدہ نہیں کرسکتی۔ نہ توشدت اس کو
مضحمل کرسکتی ہے اورنہ ہی ظلم اُس کو فنا کرسکتاہے اورنہ کوئي خطرہ اس کومٹاسکتاہے
اورنہ ہی شمشیر اس کوچھپاسکتی ہے۔ نہ توآگ اس کو جلا سکتی ہے اورنہ ہی پانی اس
کوغرق کرسکتاہے۔ نہ توشیطان اُس کو چُراسکتاہے اورنہ ہی کوئی اورخلقت اسکوباطل
کرسکتی ہے۔ کیونکہ فوق العادت فتحمندی اسی نصیبہ کے ساتھ وابستہ ہے۔
پس اے مصر! تواُس کے پاس آتاکہ وہ تیرے گناہوں کوبخش
دے اور تیری کل بیماریوں کودُور کردے اورہلاکت کے گڑھے سے تجھے بچائے اور تجھ کو
اپنی رحمت سے آراستہ کرے اورتجھے عمر کی سیری بخش دے تاکہ تونسر کی طرح ازسر نوجوان
بن جائے۔
اے مصر تواس کے پاس آ۔
کیونکہ صرف وہی اس کا مستحق ہے کہ خدا اورانسان کے
درمیان واسطہ ہو۔ مقدس یوحنا اپنے پہلے خط کے ۲: ۱ میں لکھتے ہیں کہ" اگرکوئی گناہ
کرے توباپ کے پاس ہمارا ایک شفیع ہے اوروہ سیدنا مسیح ہے جوراستباز ہے اوروہی ہمارے
گناہوں کا کفارہ ہے"۔
اے مصر
تواس کے پاس آ۔
کیونکہ یہ کفارہ نہایت بیش قیمت ہے کامل ہے اورالہٰی
ہے۔ اس لئےعبرانیوں کے خط کا مصنف کہتاہے کہ" پس اے بھائیو!چونکہ ہمیں سیدنا عیسیٰ
کے خون کے سبب اس نئی اورزندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے جواس نے
پردے یعنی اپنے جسم میں سے ہوکر ہمارے واسطے مخصوص کی ہے۔ اورچونکہ ہمارا ایسا بڑا
کاہن ہے جوخدا کے گھر کا مختار ہے توآؤہم سچے دل اورپورے ایمان کےساتھ اوردل کے
الزام کو دُور کرنے کے لئے دلوں پر چھینٹے لے کر اوربدن کوصاف پانی سے دھلوا کر خدا
کے پاس چلیں"(۱۰: ۱۹تا ۲۲)۔
اے مصر
تواس کے پاس آکیونکہ وہ "خداکا برہ ہے جودنیا کے گناہوں کواٹھائے لے جاتاہے"۔
اے مصر
تواس کے پاس آکیونکہ وہ پاک ترین مکان کا خاص کاہن ہے جس کی شفاعت ٹل نہیں سکتی ہے۔
اے مصر
تواس کے پاس آ۔
کیونکہ
وہ تیری جہالت کودُور کردیگا جس سے تواندھا ہوچلا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کا ازلی کلمہ
ہے اورحکمت اورمعرفت کا سرچشمہ ۔اے مصر تو جاہل اورتیرا اُستاد بڑا عالم اورامانت
دار ہے۔پس تواس کے پاس آتاکہ تجھ کوخدا کی مرضی بتائے اورآسمانی مملکت کی ماہیت
ظاہر کرے اورخدا کی روح تجھ کو یہ اعلان سنادے کہ" راہ،حق اور زندگی" یہی ہے۔ اے
مصر خدا یہ چاہتاہے کہ تجھ کوظلمت سے نکال کر نور میں لے آئے جوحضورمسیح ہیں
اورجنہوں نے فرمایاہے کہ" میں نے تیرا نام لوگوں پرظاہر کیا"۔
اے مصر
تواس کا استقبال کرکیونکہ وہ آفتاب صداقت ہے اور شفا اس کے پروں میں ہے اور"
دنیاکانور ہے جواس کی پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہیں رہیگا"۔ اُنہوں نے صفاتِ
الہٰی سے پردہ اٹھایا اورانسان کواس کے بیش قیمت فرائض بتلائے۔انجیل متی کے پانچویں
،چھٹے اورساتویں بابوں کوپڑھ کر توتجھے معلوم ہوجائیگا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر
تعلیم ممکن نہیں"۔
اے مصر تواس کے پاس آ۔
توتجھ کوشیطان کی غلامی سے آزاد کرسکتاہے اورناگوار
خواہشوں سے بچاسکتاہے اورادنیٰ درجہ سے اٹھاکر اعلیٰ درجہ تک پہنچاسکتاہے۔
اے مصر توکمزور ہے تواس کے پاس آجاجس کے کندھے پر
سلطنت کا عصا ہے اورجس کا نام عجیب، مشیر خدائے قادر ہے۔
اے مصر سن لے کہ فرشتہ نے اُن کی ماں سے کیا کہا
تھاکہ" اوردیکھ توحاملہ ہوگی اوربیٹا جنیگی۔ اس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہوگا
اورخدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائيگااورخدائے برتراس کے باپ داؤد کا تخت اسے دیگا۔ اوروہ
یعقوب کے گھرانے پرابدتک بادشاہی کریگا"۔(لوقا ۱: ۳۱، ۳۲)۔ اورجس کے متعلق یہ
لکھاہواہے کہ "زمین وآسمان کی حکومت اُس کو دی گئی ہے اورہرچیز اُسکے اختیار میں دی
گئی اوروہی کلیسیا کاسر ہے"۔
اس میں
کوئی شک نہیں اگر تواس کے پاس آجائے تواپنے مطلب کوپالیگا اوراپنے مقصد کوحاصل
کریگا اوردین ودنیا میں فائز المرام ہوگا۔
میخائیل منصور
لاتبدیل لکلمات اللہ
خدا کی باتیں نہیں بدلتیں
"لغت" میں نسخ کے معنی زائل کرنے اورہٹادینے کے ہیں
اوراصطلاح میں ایک حکم کوہٹاکر دوسرا حکم اس کی جگہ پرجاری کرنے کے ہیں۔
ناسخ ومنسوخ کے جاننے کے بغیر نہ توکوئی مجتہد
ہوسکتاہے اورنہ اس کا اجتہاد مکمل ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی نے ایک قاضی سے
کہا کہ کیا توناسخ ومنسوخ کوپہچانتاہے؟قاضی نے کہاکہ نہیں تب حضرت علی نے کہاکہ
توہلاک ہوگیا اوردوسروں کوبھی ہلاک کردیا۔
تمام
مسلمان نسخ کےجواز کے قائل ہیں بجز اہل کتاب۔
علماء میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ قرآن کوقرآن کے
سوائے اورکوئی چیز منسوخ نہیں کرسکتی ہے۔ بعض کہتےہیں کہ کرسکتی ہے اوراس آیت سے
دلیل پکڑتے ہیں کہ"وما ینطق عن الھویٰ وما اتاکمہ الرسول فخدوہ"۔
نسخ صرف احکام میں واقع ہوتا ہے تاریخ اورامور عقلیہ
میں نہیں ہوتاہے۔
قرآن ناسخ ومنسوخ کے لحاظ سے چند قسموں میں منقسم ہے۔
ایک قسم وہ ہے جس میں کوئی ناسخ ومنسوخ نہیں ہے اوریہ ۴۳ سورتیں ہیں الفاتحہ، یوسف،
یس، الحجرات، الرحمنٰ، الحدید، الصف، الجمعہ، التحریم، الملک، الانفطار، اوراس کے
بعد کی تین سورتیں۔ والفجر قرآن کے آخر تک بجزالتین۔ العصر اورالکافرین کے۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں ناسخ ومنسوخ دونوں ہیں اوریہ
پچیس سورتیں۔ البقر، آل عمران، النساء المائدہ، الحج، النور، الفرقان، الشعراء،
الاحزاب، سبا، المومن، شوری، الذاریات، الطور، الواقعہ، المجادلہ، المزمل، المدثر،
الشمس ، العصر، ۔
تیسری
قسم وہ ہے جس میں صرف ناسخ ہیں اوریہ باقی ماندہ چالیس سورتیں ہیں۔
نسخ کی تین قسمیں ہیں اول یہ کہ اس کا پڑھنا اورحکم
دونوں منسوخ ہوں مثلاً حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ شروع میں قرآن میں دس[4] رضعات
معلومات کی آیت نازل ہوئی تھی پھرپانچ رضعات معلومات کی آیت نازل ہوکر پہلی آیت
کومنسوخ کردیا۔ دوئم یہ کہ اس کا حکم منسوخ ہواور پڑھنا منسوخ نہ ہومثلاً یہ آیت
کتب علیکمہ اذاحضراحد کمہ الموت ان ترک خیر الوصیتہ للوالدین"منسوخ اس آیت کے ساتھ
کہ" یوصیکم اللہ فی اولاد کمہ الخ" اورنیز اس حدیث کے ساتھ کہ "لا وصیتہ لوارث"
یعنی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے۔ اسی طرح "لایحل لک النساء من بعد" منسوخ ہے اس
آیت کے ساتھ کہ" یا ایھا النبی انا اھلنا لک ازواجک" اوریہ آیت کہ" قم اللیل
الاقلیلا" منسوخ ہے اس آیت کے ساتھ کہ" فاقراؤ ماتیسرامنہ" اوریہ آیت کہ" فاینما
تولوافتمہ وجہ اللہ منسوخ ہے اس آیت سے کہ" فول وجھک شطر المسجد الحرام"۔ سوئم یہ
کہ جس کا پڑھنا منسوخ ہوا اور حکم بحال ہو"مثلاً یہ آیت کہ" الشیخ والشیختہ
اذازتیافار رجمو ھما البتتہ نکالامن اللہ واللہ عزیز حکیم"۔
حضرت
عائشہ فرماتی ہیں کہ سورہ احزاب، سورہ بقرہ کے مساوی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے
قرآن میں تغیر کیا تواب بجز موجودہ آیتوں کے اورکوئی آیت نہیں ملتی۔ ابوواقد لینی
کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلعم پروحی اُترتی تھی توہم آپ کے پاس آتے تھے اورجو وحی
ہوتی اُسکو سیکھ جاتے۔ ایک دن میں آنحضرت کے پاس آیا توآپ فرمانے لگے کہ اللہ
تعالیٰ فرماتاہے کہ" انا انزلنا المال لاقامتہ الصلاتہ وایتا الزکا ولو لا ابن آدم
واد یا من ذھب لاحب ان یکون لہ الثانی ولو کان الیہ الثانی لاحب ان یکون الیھما
الثالث و لا یملا جوف ابن آدم الاالتراب ویتوب اللہ علیٰ من تاب"۔
ترجمہ: میں نے دولت اس لئے دی کہ لوگ نماز پڑھیں
اورزکوات دیں اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتی ہے تووہ دوسری کی خواہش
کرتاہے اگراُس کودوسری بھی دی جاتی توتیسری کی خواہش کرتا انسان کا پیٹ بھرت نہیں
مگر قبر کی مٹی سے جوتوبہ کرتے ہیں خدا ان پر رجوع برحمت کرتاہے"۔
مکہ میں منسوخ آیتیں کثرت سے نازل ہوئیں"۔ مثلاً سورہ
بقرہ کی آیت ۶۲ إِنَّ الَّذِينَ
آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَاس آیت سے منسوخ ہوئی کہ" ومن یبتغ غیرالاسلام دینا" الخ
اوریہ آیت کہ" لااکراہ فی الدین الخ" اس آیت سے منسوخ ہوئی کہ "قاتلو الذین
لایومنون باللہ ولا بالیومہ مرہ لاآخر" اوریہ آیت کہ" کتب علیکمہ القصاص فی القتلیٰ
الحر بالحر"الخ اس آیت سے منسوخ ہوئی کہ" ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیہ سلطاناً
الخ" اوراس حدیث سے کہ" وقتل الحربالعبد اسراف" یعنی" غلام کے بدلے میں آزاد کا قتل
کرنا اسراف ہے"۔ اوریہ آیت کہ" یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما الخ" منسوخ ہے اس
آیت سے کہ" یاایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر ولا نصاب الخ" ناسخ ومنسوخ میں
احادیث صحیحہ اورتاریخ معتبر ہوتی ہے نہ کہ عقل اوررائے۔
عبارت
مافوق سے ذیل کی باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ:
(۱۔)
مسلمانوں کے نزدیک احکام شرعی خدا کی ذات اورصفات پر مبنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ
خواہشات اورماحول کے اختلافات پر مبنی ہوتے ہیں۔لیکن ہم مسیحیوں کے نزدیک احکام
شرعیہ خدا کی ذات اورصفات پر مبنی ہوتے ہیں جیسے ہمارے منجئی فرماتے ہیں کہ" تم بھی
کامل ہوجس طرح تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔
(۲۔)
مسلمانوں کے نزدیک کسی فساد کی اصلاح کی غرض سے یاتکمیل کی غرض سے نسخ جاری نہیں
ہوتا جس کوہم اپنی اصطلاح میں تکمیل کہتے ہیں جیسے منجئی فرماتے ہیں کہ " میں اس
لئے نہیں آیاکہ توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کروں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا
کرنے آیاہوں"۔ اس کی زیادہ توضحیح آیات ذیل سے ہوتی ہے کہ:
خون کے
بارے میں تم سن چکے ہوکہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کر۔ اورجوکوئی خون کریگا
وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتاہوں کہ جوکوئی اپنے بھائی
پرغصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ اورجوکوئی اپنے بھائی کوپاگل کہیگا وہ
صدرعدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ اورجواُس کواحمق کہیگا وہ آگ کے جہنم کا سزاوار
ہوگا۔پس اگر توقربانگاہ پر اپنی نذر گذارنتا ہو اوروہاں تجھے یادآئے کہ میرے بھائی
کومجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تووہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑدے اورجاکر پہلے اپنے
بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذرگذران، جب تک تواپنے مدعی کے ساتھ راہ میں ہے اُس
سے جلد صلح کرلے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مُدعی تجھے منصف کے حوالے کردے اورمنصف تجھے
سپاہی کے حوالے کردے اورتوقید خانے میں ڈالا جائے۔ میں تجھ سے سچ کہتاہوں کہ جب تک
توکوڑی کوڑی ادا نہ کریگا۔وہاں سے ہرگز نہ چھوٹیگا۔
زنا کے
بارے میں ، تم سن چکے ہوکہ کہا گیا تھاکہ زنا نہ کر لیکن میں تم سے یہ کہتاہو ں کہ
جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زناکرچکا۔
پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے۔ تواسے نکال کراپنےپاس سے پھینک دے۔
کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اورتیرا سارا بدن
جہنم میں نہ ڈالا جائے اور اگرتیرا دہنا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تواُسے کاٹ کراپنے
پاس سےپھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے
اورتیرا سارا بدن جہنم میں نہ رہ جائے۔ یہ بھی کہا گیا تھاکہ جوکوئی اپنی بیوی
کوچھوڑدے اُسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے کہتاہوں کہ جوکوئی اپنی بیوی کو
حرام کاری کے سوا کسی اورسبب سے چھوڑدے وہ اُس سے زنا کراتاہے۔ اورجوکوئی اُس چھوڑی
ہوئی سے بیاہ کرے وہ زناہ کرتاہے۔
قسم
کھانے کے بارے میں، پھرتم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹي قسم نہ کھا۔
بلکہ اپنی قسمیں خداوند کے لئے پوری کر۔لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ
کھانا۔ نہ توآسمان کی کیونکہ وہ خداکا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاؤں کے
نیچے کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی
قسم کھانا کیونکہ توایک بال کوسفید یاکالا نہیں کرسکتا۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہا ں
یا نہیں نہیں ہو۔ کیونکہ جواس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔
انتقام
لینے کے بارے میں تم سن چکے ہو کہ کہا گیاتھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اوردانت کے بدلے
دانت،لیکن میں تم سے یہ کہتاہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا۔بلکہ جوکوئی تیرے دہنے
گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اوراگرکوئ تجھ پر نالش کرکے تیرا
کرتا لینا چاہے توچوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔اورجوکوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے
جائے اُس کے ساتھ دوکوس چلا جا۔ جوکوئی تجھ سے مانگے اُسے دے۔ اورجوتجھ سے قرض
چاہے۔ اُس سے منہ نہ موڑ۔
عداوت کے بارے میں تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا اپنے
پڑوسی سے محبت رکھ اوراپنے دشمنوں سے عداوت ۔لیکن میں تم سے یہ کہتاہوں کہ اپنے
دشمنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والے کے لئے دعا مانگو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے
جوآسمان پر ہے بیٹے ٹھیرو۔کیونکہ وہ اپنے سورج کوبدوں اورنیکوں دونوں پرچمکاتاہے۔
اورراستبازوں اورناراستوں دونوں پر مینہ برساتاہے۔ کیونکہ اگرتم اپنے محبت رکھنے
والوں ہی سے محبت رکھو توتمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں
کرتے؟ اوراگرتم فقط اپنے بھائيوں ہی کوسلام کروتوکیازیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں
کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ پس چاہیے کہ تم کامل ہوجیسا تمہارا آسمانی باپ کامل
ہے۔(متی ۵: ۲۱سے آخرتک)۔
(۳۔) مسلمانوں کے نزدیک نسخ ایک ہی وقت میں اورایک ہی
نبی کی زبانی واقع ہوتاہے جواُن کے اس قول کے منافی ہےکہ" انسانوں کی بہتری کے لئے
نسخ واقع ہوتاہے" کیونکہ یہ بات عقل میں نہیں آسکتی ہے کہ ایک ہی دن یا دونوں میں
انسانوں کی مصلحتیں بدل جائيں۔ بالفرض اگرمسیحی نسخ کے قائل بھی ہوجائیں تووہ ہرگز
یہ نہیں کہیں گے کہ موسیٰ نے موسیٰ کویا مسیح نے مسیح کومنسوخ کردیا۔
(۴۔)بیان مافوق سے یہ بھی
معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کے نزدیک کس غرض کے لئے نسخ واقع نہیں ہوتاہے کیونکہ
اگرکسی غرض یا مقصد کے لئے واقع ہوتاتو اس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی کہ بعض کی تلاوت
منسوخ ہواورحکم منسوخ نہ ہو اور بعض کا حکم منسوخ ہو اورتلاوت منسوخ نہ ہو۔
کاش کہ مسلمان کتب مقدسہ کی طرف رجوع کریں اوران ہی
کوحزرجان بنائیں کیونکہ یہ خدا کی وہ کتابیں ہیں جن میں ردوبدل کی مطلق گنجائش نہیں
اورنہ ہی فساد ڈالنے والا ان میں فساد ڈالنے والا ان میں فساد ڈالا سکتاہے۔ مقدس
پولوس نے کیا ہی خوب لکھاہے کہ" ہرایک صحیفہ جوخدا کے کلام سے ہے تعلیم اور الزام
اوراصلاح اورراستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے تاکہ مردخدا کامل بنے
اورہرایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہوجائے(۲تیمتھیس ۳: ۱۶، ۱۷)پس میں خدا سے دعا
کرتاہوں کہ وہ مسلمانوں کی ذہنیت کوبدل دے اوران کو صراط المستقیم پرچلنے کی توفیق
عنایت کرے تاکہ وہ اس نورکودیکھ لیں جوکتب مقدسہ میں چمک رہاہے اور نجات حاصل کریں۔
میخائیل منصور
توحید وتثلیث
ہم تمام مسیحیوں کا اس پرایمان ہے کہ خدا ایک ہے اس
کا کوئی شریک نہیں ہمارے اس ایمان کی بنیاد نہ صرف عقل پر ہے بلکہ بائبل مقدس پر ہے
جس میں خداکی وحدانیت پرسینکڑوں آیتیں ہیں اگرہم ان سب کو یہاں نقل کریں تواس مختصر
کتاب میں انکی گنجائش نہ ہوگی لہذا نمونہ کے طورپر ہم ذیل کی آیتوں پر ہی اکتفا
کرتے ہیں۔
"خداوند اسرائیل کا بادشاہ اوراُس کا نجات دینے والا رب الافواج یوں فرماتاہے کہ
میں اول اورآخر ہوں اورمیرے سوائے کوئی خدا نہیں"(یسعیاہ ۴۴: ۶)۔
کیونکہ
خداوند جس نے آسمان پیدا کئے وہی خدا ہے اُس نے زمین بنائی اور تیار کی اس نے اسے
قائم کیا۔اس نے اسے عبث پیدا نہیں کیابلکہ اسے آبادی کے لئے آراستہ کیا وہ یوں
فرماتاہے کہ میں خداوند ہوں اور میرے سواکوئی نہیں"(یسعیاہ ۴۵: ۱۸)۔
حضور مسیح نے بھی نہایت کثرت کے ساتھ یہی گواہی دی ہے
چنانچہ ایک یہودی کے جواب میں فرماتے ہیں کہ "۔ سن اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا ایک
ہے (مرقس ۱۲: ۲۹)۔
پھرآپ فرماتے ہیں کہ" ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ
تجھے خدائے واحد اوربرحق اوریسوع مسیح کوجسے تونے بھیجا ہےجانیں (یوحنا ۱۷: ۳)۔
حضور مسیح کے تمام حواریوں نے اسی وحدانیت کواپنا
مطمع نظررکھا اوراُسی کی منادی کی چنانچہ مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ" لیکن ہمارے
نزدیک توایک ہی [5] خدا ہے یعنی باپ"(۱کرنتھیوں ۸: ۶)۔
اس
واحدانیت کی مراد یہ ہے کہ خدا اپنی ذات اوراپنی صفات اوراپنے افعال میں واحد ہے
وحدت فی الذات کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی ذات اجزاء سے مرکب نہیں ہے۔ نہ توکسی مسیحی
نے آج تک کہا ہے اورنہ کہتا ہے اورنہ کہیگا کہ خدا تین میں کا ایک ہے اورمسیح تین
میں کا دوسرا ہے اورروح القدس تین میں سے تیسرا ہے کیونکہ یہ صریح شرک ہے۔ اسی طرح
نہ توہم خدا کے شبیہ کے قائل ہیں اورنہ اس کے نظیر کے اورنہ اُس کی مثل کہ ہمارا
ایمان ہے کہ خدا بے مثل ہے اورسمیع وبصیر ہے۔
وحدت
فی الصفات کے یہ معنی ہیں کہ جوصفات خدا میں پائی جاتی ہیں ۔ وہ حقیقی معنوں میں
کسی اورمیں نہیں پائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ ہم انبیاء کوبھی قادر بالذات اورعالم
بالذات اورغالب بالذات نہیں مانتے ہیں۔
وحدت
فی الافعال کے یہ معنی ہیں کہ بجز خدا کے ممکن نہیں کہ کوئی اورمخلوقات کوخلق یا
ایجاد کرسکے یا ان پر کسی قسم کی اثر اندازی کرسکے۔ کیونکہ حقیقی موثر خدا کی ذات
ہی ہے۔
اب صرف
اس اُمر کی تشریح باقی رہ گئی جس کوہم ثالوث کہتے ہیں۔ سویادرکھنا چاہیے کہ کوئی
مسیحی اس کا قائل نہیں کہ تین خدا ہیں۔ بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے تین
اقانیم کے ساتھ۔
افسوس
ہے کہ مسلمان ہمارے مطلب کے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم
تعددذوات کے قائل نہیں حالانکہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے ہیں کہ خدا کی تین ذاتیں ہیں
بلکہ ہم ایک ذات کے قائل ہیں۔
اوراگرمسلمانوں کا یہ خوف ہے کہ تثلیث سے تعددصفات لازم آتاہے سویہ بھی غلط ہے۔
کیونکہ ہم ہرگز اس کےقائل نہیں کہ مثلاً خدا کا ایک تقدس ہے مسیح کا دوسرا تقدس ہے
اورروح القدس کا تیسراتقدس ہے بلکہ ہم اس کے قائل ہیں کہ جوتقدس خدا کا ہے وہی مسیح
اورروح القدس پرشامل ہے۔
اوراگرمسلمانوں کویہ خوف ہے کہ اس سے تعداد افعال
لازم آتاہے توہمارا یہ ایمان ہے کہ خداہی جس کوچاہتاہے عزت دیتاہے اورخدا ہی جس
کوچاہتاہے ذلیل کرتاہے اسی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اوروہی ہرشے پرقادر ہے۔
اب مسلمانوں کے پاس کوئی عذر نہیں رہا۔بجز معتزلیوں
کے عذر کے جوخدا کی کل صفات سے محض اس لئے انکار کرتے ہیں اس سے تعدوقدماء لازم
آتاہے اورکہتے ہیں کہ خدا قادر ہے لیکن اپنی ذات کے لحاظ سے۔ خدا عالم ہے لیکن اپنی
ذات کے لحاظ سے۔ خدا مرید ہے لیکن اپنی ذات کے لحاظ سے یعنی خدا میں کوئی صفت نہیں
بلکہ محض ذات ہی ذات ہے۔
دلائل
مافوق سے قطع نظرکرکے میں مسلمان بھائیوں کوایک مخلصانہ نصحیت کرتاہوں کہ وہ صرف اس
لحاظ سے تثلیث پر ایمان لائیں کہ تثلیث پر ایمان لانے کا حکم خدا نے دیا ہے کیونکہ
جس امر پر خدا حکم دیتاہے وہ محال ہے کہ عقل کابرخلاف ہو۔ کیونکہ خدا کے قول اورفعل
میں کبھی مخالفت نہیں ہوتی ہے۔
مثلاً
اگرکوئی شخص مسلمانوں سے یہ سوال کر ے کہ" الرحٰمن علی العرش استویٰ" کی حقیقت
سمجھا دوتووہ کون مسلمان ہے کہ عقل کے رو سے اس کی تشریح یا تفصیل سمجھا سکے۔
بلاآخر وہ یہی کہیگا کہ چونکہ یہ خدا کا قول ہے اسلئے بلادلائل عقلی میں اس پر
ایمان رکھتاہوں۔ پس تثلیث کوبھی اس پر قیاس کرنا چاہیے۔
حقیقت
یہ ہے کہ خدا کی ذات کونہ توہم حواس سے دریافت کرسکتے ہیں اورنہ ہماری عقل وہاں تک
پہنچ سکتی ہے اس لئے سب سے بہتر اورافضل طریقہ یہی ہے کہ جوکچھ وہ خود اپنی ذات کے
متعلق ہمیں بتلاتاہے بلاچون وچرا اُ س پر ایمان لے آئیں۔
(م۔م)
سوال اوراُس کا جواب
جب
ہمارا مضمون مافوق شائع ہوگیا تو فاضل محترم شیخ نے ہم سے سوال کیا جس کوجواب کے
ساتھ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
اے فاضل محترم ! آپ کا یہ فرمانا کہ ہم تین خداؤں کے
قائل ہیں۔ ہم پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اگرآپ میرے مضمون کوغور سے مطالعہ فرماتے توآپ
پر واضح ہوجاتاکہ ہماری کتب مقدسہ یک زبان ہوکر خدا کی وحدانیت پر شہادت دے رہی ہیں
کہ خدا اپنی ذات اوراپنی صفات اوراپنے افعال میں وحدہ لاشریک لہ ہے۔ کتب مقدسہ میں
خدا کی وحدانیت پر اس کثرت سے آیتیں ہیں کہ شاید ہی کوئی باب ایسا ہو جس میں خدا کی
وحدانیت کی تعلیم نہ ہو۔ پس کس طرح یہ ممکن ہو سکتاہے کہ مسیحی دیدہ ودانستہ اپنی
کتب مقدسہ کی تعلیم سے منحرف ہوں۔ آگرمسیحی تین خداؤں کی پرستش کرتے جیسا کہ آپ
نےفرمایاہے تومسیحی مشرکوں اوربت پرستوں کے ہاتھوں اس قدر ظلم نہ اٹھاتے جس کے بیان
سے قلم کانپتا ہے اوربدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسیحیوں کا کثرت کے ساتھ بت
پرستوں کے ہاتھوں شہید ہونا۔ آگ میں جلایا جانا۔ زندہ شیروں کے سامنے پھینکا جانا
صرف اورصرف توحید پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے تھا۔اگرمسیحی مشرک ہوتے توکیوں اس قدر
تکالیف برداشت کرتے۔
ہمارے نزدیک تثلیث عبارت ہے تین اقانیم سے جس کو آپ
یوں سمجھ لیجئے جس طرح کہا جاتاہے کہ قدرت سے قدرت ظاہر ہوتی ہے اورارادہ سے ارادہ
صادر ہوتاہے۔لیکن کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ قدرت سے ارادہ ظاہر ہوتاہے اور ارادہ سے
قدرت صادر ہوتی ہے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ مسیحی اقانیم کو صفات کیوں نہیں کہتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہےکہ ہم صفات کوعین ذات مانتے ہیں ذائد علی الذات نہیں مانتے ہیں اس
لئے اقانیم کوعین ذات توکہتے ہیں لیکن ذائد علی الذات نہیں۔
نیز ہم کویہ مانتے ہیں کہ تینوں اقانیم قدیم ہیں ایک
دوسرے سے نہ پہلا ہے نہ پچھلا اورنہ ایک دوسرے کا معلول ہے اور نہ علت۔
اے فاضل محترم! اگرچہ مسئلہ تثلیث بظاہر بہت ہی دقیق
اورمشکل معلوم ہوتاہے لیکن اگرآپ ٹھنڈے دل سے ان پر تھوڑی دیرتک غورفرمائیں تودیگر
مسائل کی بہ نسبت بہت ہی سہل اورآسان معلوم ہوگا والسلام
(م۔م)
مسیحی مسلمانوں کے قرضدار ہیں
اتنی
بات کوسب جانتے ہیں کہ مسیحیت کی تبلیغ تمام مسیحیوں پر فرض ہے۔ یہ اس ذات ستودہ
صفات کی امانت ہے جس نے ہماری خاطر طرح طرح کی تکالیف اورمصائب سہہ کر اپنی جان دی۔
تمام رسولوں نے اس بھید کوسمجھ لیا اوراپنے منجی کا پیغام لے کر ساری دنیا میں پھیل
گئے ان کا واحد مقصد یہ تھا کہ اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ"
میں یونانیوں اورغیر یونانیوں داناؤں اورنادانوں کاقرض دار ہوں"(رومیوں ۱: ۱۴)۔
کاشکہ مسیحی اس بات کوسمجھ لیں کہ مسیحیوں پر یہاں تک تبلیغ فرض ہے کہ کسی شخص کویہ
عذر باقی نہ رہے کہ مجھ کوتبلیغ نہیں کی گئی۔ افسوس ہے اُس شخص پر کہ کسی کو جاہل
پائے اوراس کو علم نہ سکھائے۔حیران پائے اوراس کو تسلی نہ دے بے راہ پائے اوراس کو
راستہ نہ بتائے۔
چونکہ مسلمان بھی اسی طرح تبلیغ کے محتاج ہیں جس طرح
کوئی اورتمہارا فرض ہے کہ ہم ان میں تبلیغ کریں اورنجات میں اپنے شریک ۔ اس تبلیغ
سے صرف یہی فائدہ نہ ہوگا کہ بہت سی روحیں ہلاکت سے بچینگی بلکہ یہ بھی کہ ہم اپنے
فرض سے سبکدوش ہونگے۔ حضور مسیح کے مقاصد پورے ہونگے حضور کو بے حدخوشی حاصل ہوگی۔
اورہمیں بھی اس بات سے کہ ہم اپنے منجی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بے حد خوشی حاصل
ہوگی۔ اورعملاً اپنے آپ کوحضور کے رسول ثابت کرینگے (یوحنا ۷: ۱۸)۔
مسلمانوں کے ساتھ تبلیغی گفتگو میں امور ذیل کا لحاظ
رکھنا چاہیے۔
(۱۔) محبت: آپ پر فرض ہے کہ نہ صرف زبان سے بلکہ
افعال سے اپنے مخاطب کواس کا یقین دلائیں کہ آپ ان کے دوست ہیں۔ ان کے خیرخواہ ہیں
اور ان کو بیحد پیارکرتےہیں اورجوکچھ آپ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں محبت ہی اس کا
باعث ہے اورآپ ان کوروحانی ہلاکت سے بچا رہے ہیں۔کبھی آپ کے دل میں یہ خیال نہ گذرے
کہ آپ اُن سے اس لئے مباحثہ کررہے ہیں کہ دلائل ہیں ان پر غالب آجائیں یا اُن شکست
دیں۔ ایک عرب اپنے بیٹے کوکیا ہی اچھی نصیحت کرتاہے۔
ابنی ان النصر شئی ھین
وجھ طلیق وکلام لین
ترجمہ: پیارے بیٹے! فتح مندی بہت ہی آسان ہے۔ اگرخندہ
پیشانی اورشیریں زبانی ہو۔
میں نے خود بعض جلوس میں اسکا تجربہ کرکے دیکھاہے۔ جب
کبھی میں نے یہ چاہا کہ اپنے حریف پر علمی دلائل اورمنطقی براہیں کے زور سے غالب
آجاؤں تواس کے بعد میں اپنے دل میں ایک قسم کی کمزوری محسوس کرتا اورمجھ کومعلوم
ہوجاتاکہ اگرمیں اپنے حریف پرہزارہا غالب آجاؤں تووہ مجھ سے کچھ فائدہ حاصل نہ
کرسکیگا۔
اوراگرخدا ہمیں یہ توفیق دے کہ اپنے حریف کے ذہن نشین
کرسکیں کہ جوکچھ ہم کررہے ہیں صرف اس کی روحانی بہتری کے لئے کررہے ہیں تو یقیناً
ہم اپنےمقصد میں کامیاب ہونگے۔
(۲۔) جب آپ کسی مسلمان کوانجیل کی تعلیم دیں توصاف
صاف اور نہایت وضاحت کے ساتھ تعلیم دیں کیونکہ مسلمان علی العموم انجیل سے ناواقف
ہوتے ہیں۔ نیز گفتگو کاآغاز ابتدائی مسائل سے ہوناچاہیے۔ جب ابتدائی مسائل کوسمجھ
جائینگے تب انتہائی مسائل خود بخود ان کی سمجھ میں آتے جائینگے۔
خود میری یہی حالت تھی جب میں مسلمان تھا تومیں یہی
سمجھتا تھاکہ انجیل مفقود ہے جوکچھ موجود ہے وشایان التفات نہیں ہے۔ لیکن کتب مقدسہ
میرے ہاتھ لگیں اور انکا بغور مطالعہ کیا تب مجھ پر حقیقت کھل گئی اوراس کتاب کی
عظمت اورعزت میرے دل پر جم گئی۔ صرف میرے ساتھ یہ واقعہ نہیں ہوا بلکہ ہرایک شخص کے
ساتھ جس کادل اغراض دنیاوی اورلوث تعصب سے پاک ہو یہی ہوتاہے۔ میں ایک فارسی عالم
شخص کو جانتاہوں جوقاہرہ میں مقیم ہے ایک دن مجھ سے کہا میں نے تمام بڑے بڑے مذاہب
کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن مسیح کا کلام پڑھ کر کوئی کلام مجھ جلالی معلوم نہ
ہوا۔
(۳۔) جب آپ کسی مسلمان کے ساتھ حضور مسیح کے متعلق
گفتگو کریں تومسیح کی تصویر ان کی تعالیم اوران کے معجزات اورزندگی کی وساطت سے اس
طرح کھینچ دیں کہ آپ کا مخاطب پورےطور سے اس کا قائل ہوجائے کہ درحقیقت تمام دنیا
اس قسم کی تعالیم اورمعجزات اورزندگی کی محتاج ہے۔ جب آپ اس طریقہ سے کسی مسلمان کے
سامنے مسیح کی تصویر کھینچ دیں تویقیناً وہ اس کوتسلیم کریگا کہ درحقیقت دنیا
کوایسے شخص کی ضرورت ہے ۔
(۴۔) جس بات کی آپ تعلیم دیں اس کی صداقت کے ضامن
ہوکر تعلیم دیں۔ نہ تواظہار صداقت میں کسی سے ذکرکریں اورنہ کسی قسم کا شک کریں۔
قدیم زمانہ کے رسولوں اورایماندار مسیحیوں کی یہی کیفیت تھی یہاں تک کہ اپنے خون سے
اُنہوں نے کلیسیا کی دیواریں اٹھائیں۔ قس ابن سعدہ جونجران کا بشپ اورفصحاء عرب
کاباعث فخر تھا جب عکاذ کا بازار لگتا تھا توسحر بیان بشپ وہاں جاکر ہزاروں بت
پرستوں کے آگے مسیحیت پراس طرح لکچر دیا کرتا تھا کہ گویا مجسم صداقت اورمجسم شجاعت
ہے انہی سننے والوں میں آنحضرت بھی تھے۔ چنانچہ جب نجران کا وفد آنحضرت کے پاس آیا
تو آنحضرت نے اُسے پوچھا کہ تم میں سے کون قس ابن سعدہ کوجانتا ہے انہوں نے کہا کہ
ہم سب جانتے ہیں ۔ تب آنحضرت نے کہا کہ میں کبھی ان کو بھول نہیں سکتا خصوصاً جب کہ
وہ سوق عکاذ میں ایک سرخ اونٹ پر سوار تھے اورلکچر دے رہے تھے۔
مسیحی بھائیو آپ پرفرض ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغ کریں
کیونکہ آپ اپنے مسلمان بھائیوں کے قرضدار ہیں کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ زندہ ایمان
وہی ہے جس کی زندگی کا چشمہ پھوٹ نکلے اور پیاسوں کوسیراب کرے۔ کیا یہ آ پ کو اچھا
معلوم ہوتاہے کہ آپ نجات کی برکات سے فائدہ اٹھائیں اورآ کے بھائی محروم رہیں۔
میخائیل منصور
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا
مسیح
کواُس کے روز پیدائش سے اس کے خارجی اورداخلی دشمنوں کے ہاتھوں جس قدر تکلیف پہنچی
ہے اور جس شدومد کے ساتھ اس کی مزاحمت کی گئی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی کسی
اورمذہب کے ساتھ کیا جاتا تویقیناً وہ مذہب آج صفحہ روزگار سے ناپید ہوتا۔ لیکن
مسیحیت کی یہ حالت ہے کہ خدا کے فضل سے وہ ایک چٹان کی طرح مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے
اور روز بروز ترقی کرتی جاتی ہے اور اس سے ٹکر مارنے والے کی کھوپڑی خود پاش پاش
ہوجاتی ہے۔
کنا طح صحزتہ یوما لیوھنہا
فلمہ یضر ھاواوھی قوفہ الوعل
ترجمہ: اُس پہاڑی بکرے کی طرح جو چٹان پر اسلئے ٹکر
مارتاہے کہ اس کو چکنا چور کردے لیکن خود اُس کے سینگ کے پرخچے اڑجاتے ہیں۔
زمانہ جہالت میں اگر اس قسم کے حماقت آمیز اقدامات
بروئے کار آتے توچنداں تعجب نہ ہوتا۔ تعجب تویہ ہے کہ اس علم اور روشنی کے زمانہ
میں بھی اُس کو بُز کوہی کے مثل کثرت سے مل جاتے ہیں ۔ ایک صاحب نے جن کا نام ڈاکٹر
صدیقی ہے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام" دینِ اللہ" ہے۔ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ"
مسیح کا مرکر زندہ ہوجانا ایک مجنونانہ عقیدہ ہے بلکہ وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے"
ڈاکٹر صاحب سے تویہ توقع رکھنا ہے کہ وہ انجیل جلیل کوغور سے مطالعہ کرینگے عبث ہے
کاشکہ وہ قرآن شریف ہی کو غور سے مطالعہ فرمائیں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اس
مجنونانہ عقیدہ " میں قرآن شریف بھی ہمارے برابر کا حصہ دار ہے۔ ذیل کی آیات ملاحظہ
ہوں"۔
(۱۔)واذقال اللہ یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطھر
ک من الذین کفروا"۔
(۲۔) والسلام علی یومہ ولدت ویوم اموت ویوم ابعث
حیا"۔
(۳۔) فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علیٰ کل
شئی قدیر"۔
ڈاکٹر صاحب آیات بالا میں فوت [6] کے مجازی معنی یعنی"
نیند" اور "اٹھانے" کے لیتے ہیں جوسراسر غلط ہے۔ کیونکہ مجازی معنی اُس وقت لئے
جاسکتے ہیں جبکہ حقیقی معنی کسی صورت میں درست نہ بیٹھتے ہوں اورنیز ایک قرینہ
موجود ہو۔ آیات بالا کے حقیقی معنی لینے میں نہ توکوئی قباحت لازم آتی ہے اورنہ
کوئی قرینہ موجود ہے۔ لہذا ہمارے معنی صحیح ہیں"۔
کہ" اے
عیسیٰ میں تجھ کوموت دینے والاہوں اور پھراپنی طرف اٹھانے والا ہوں"۔
اوراگر فوت کے معنی یہاں پر رفع کے لئے جائیں توایک
اورقباحت لازم آتی ہے جس سے آیت بالکل مہمل ہوجاتی ہے یعنی آیت کے معنی یہ ہونگے
کہ" اے عیسی میں تجھ کواپنی طرف اٹھانے والا ہوں" جوایک فضول تکرار ہے۔
پس جومعنی مسیحی لیتے ہیں وہی صحیح ہیں کہ خدا نے
حضور مسیح کوصلیب پر موت دی اورپھرزندہ کرکے آسمان پر اٹھالیا ۔ نیز وہ مسلمان
علماء جوعہد رسالت کے قریب ترتھے اورعربی زبان کے اسلوب سے خوب واقف تھے۔جیسے ابن
عباس، محمد بن اسحاق ، وہب وغیر ہم نے بھی آیات مافوق میں لفظ توفی کے یہی معنی کئے
ہیں جوہم کرتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی مستند تفاسیر میں ان کے اقوال موجود ہیں۔
اگرتعصب کی پٹی آنکھوں سے اُتار کردیکھا جائے تومعلوم ہوجائیگا کہ حضور مسیح کے
حوارئیں نے جوحضور کے زندہ ہوجانے کی گواہی دی ہے وہ کسی کی سنی نہیں کہتے ہیں بلکہ
آنکھ دیکھتی ہیں اورتحقیق کرکے کہتے ہیں چنانچہ مقدس توما کوجب خبردی گئی کہ حضور
مردوں میں سے جی اٹھے ہیں تو توما نے کہاکہ" جب تک میں اس کے ہاتھوں میں میخوں کے
سوراخ نہ دیکھ لوں اورمیخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال دوں اور اپنا ہاتھ اس
کی پسلی میں نہ ڈالوں ہرگز یقین نہ کرونگا"(یوحنا ۲۰: ۲۵)۔
تب
خداوند توما پرظاہر ہوکرفرماتے ہیں کہ"اپنی انگلی پاس لاکر میرے ہاتھوں کودیکھ
اوراپنا ہاتھ پاس لاکر میری پسلی میں ڈال اوربے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ"۔
توما نے جواب میں کہا " اے میرے خداوند اے میرے خدا"(یوحنا ۲۰: ۲۶۔ تا ۲۸)۔
اسی
طرح ایک بار اپنے ان دو شاگردوں پراپنے آپ کوظاہر کیا جو عمواس کی طرف جارہے تھے
اورآخری بارپانسو شاگردوں پرظاہر ہوئے اوران سب کی آنکھوں کے سامنے آسمان پر اٹھائے
گئے مزید تفصیل کے لئے حوالات ذیل ملاحظہ ہوں۔
لوقا
۲۴۔ یوحنا ۲۰، ۲۱۔ مرقس ۱۶۔ متی ۲۸۔ اعمال ۱، ۲، ۳، ۴، ۲۶ اورکرنتھیوں کے پہلے خط
کا ۱۵باب۔خدا ڈاکٹر صاحب کوتوفیق عنایت کرے کہ وہ انجیل جلیل اورقرآن شریف کے مطالب
کوسمجھ سکیں۔
(م۔م) مسلمانوں کا مبشر۔ درمصر
سوالات اورجوابات
حضرت فاضل مدیر مجلہ بشائر السلام۔
بعد ازسلام واحترام ۔ اگرآپ ذیل کے دوسوالوں کے جواب
عنایت فرمائیں تومیں آپ کا بے حد متشکر ہونگا۔
(۱۔) کیا مسیحیت کے اصول کی کوئی صحیح کتاب ہے جس طرح
اور ادیان کی سماوی اورصحیح کتب ہوتی ہیں۔
(۲۔) کیا کفارہ مسیحیت کی بنیادی اصل ہے؟ اگرجواب
اثبات میں ہے توزبور کی اس آیت کی کیا تاویل ہے کہ" ان میں سے کسی کا مقدورنہیں کہ
اپنے بھائی کوچھڑائے یا اس کا کفارہ خدا کودے"(زبور ۴۹: ۷)۔
سائل احمد طالب علم
درجہ سال چہارم لذقم اعلی
ازہرشریف
بشائر السلام ۔آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ
مسیحیت کی بنیادی اوراساسی دستور العمل وہ الہٰی کتابیں ہیں جن کے مجموعہ کوہم
بائبل مقدس کہتے ہیں جوہرقسم کے اغلاط واباطل سے پاک وصاف ہے۔
بائبل
مقدس کی صحت اورالہامی ہونے کے سینکڑوں دلائل ہیں جن میں سے ایک اس کی سینکڑوں
پیشینگوئیوں کا پورا ہونا ہے ۔مثلاً یہودی قوم کوایسے وقت میں ان کی بربادی
اورپراگندگی کی خبردینا جبکہ وہ ترقی کے انتہائی منازل طے کررہی تھی۔ بابل، اشور،
اورنینوا جیسی عظیم الشان سلطنتوں کے سقوط اورناپید ہونے کی۔ عین اس وقت میں
پیشینگوئی کرنا جبکہ یہ سلطنتیں عظمت اورجبروت کی بلند چوٹیوں کے انتہائی اوج پر
پہنچ چکی تھیں۔ اور ان پیشین گوئیوں کالفظ بہ لفظ پورا ہوجانا بے شک بائبل مقدس کی
من جانب اللہ ہونے کی ایسی بین دلیل ہے جس سے کوئی شخص بشرطیکہ وہ منصف مزاج
ہوانکار نہیں کرسکتاہے۔ یہ تو داخلی دلیل ہوئی۔ خارجی دلیل اکتشافات آثار قدیمہ ہیں
جن سے بائبل مقدس کے بیانات کی پوری تائید اورتصدیق ہوتی ہے۔
بائبل
مقدس کی صحت کی تیسری دلیل اس کی حفاظت ہے۔ باوجود اس کے کہ بائبل مقدس دنیا کے کتب
خانے میں سب سے قدیم ترکتاب ہے جس پرہزاروں برس گذرچکے ہیں لیکن آج وہ ایسی ہی
محفوظ ہے جس طرح روزاول میں تھی۔
آپ کے
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک کفارہ مسیحیت کی بنیادی اصل ہے اورسب سے بڑا رکن
جس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگرکفارہ سے انکار کیا جائے توخدا کی صفت عدل اوررحم سے
انکار کیا جائے توخدا کی صفت عدل اور رحم سے انکار لازم آتاہے۔ کیونکہ کفارہ کے
بغیر یہ دونوں صفتیں جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔
باقی
رہی نقل دلیل سوکتب مقدسہ اس سے بھری ہوئی ہیں۔ حتی کہ حضرت داؤد۔ حضرت یشعیاہ۔
حضرت، حضرت دانیال علیھم السلام نے نہ صرف مسیح کے کفارہ کا ذکر کیا ہے بلکہ ان کے
صلیبی واقعات کوبقید تاریخ اورمقام اوروقت نہایت وضاحت اورتفصیل کے ساتھ بیان کیا
ہے تاکہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔ حضور کا کفارہ رسولوں کی تبلیغ کی
بنیاد تھا اورآج تک تمام مسیحی کلیسیائیں اس پر ایمان رکھتی ہیں اوراس کی صحت
کےبالتواتر قائل ہیں۔
زبور کی جس آیت سے آپ نے کفارہ کی نفی پراستد لال کیا
ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت زیربحث میں مجرد انسان کاذکرہے اوریہ صحیح ہے کہ
مجرد انسان کسی کاکفارہ نہیں دے سکتاہے۔لیکن حضور مسیح مجرد انسان نہیں ہیں بلکہ وہ
کامل انسان اورکامل خدا ہیں اس لئے وہ اس آیت کےتحت میں نہیں آسکتے ہیں۔ لہذا وہ
کامل کفارہ ہیں۔
خدا آپ
کوتوفیق دے کہ آپ حضور کے کفارہ کی حقیقت اوراہمیت کوسمجھ جائیں اوراس پر ایمان
لائیں۔
پھر یہی صاحب اوردوسوال کرتے ہیں جوحسب ذیل ہیں:
(۱۔) مسیح کے" ایلی ایلی" کہنے سے دوباتیں لازم آتی
ہیں(۱۔) یا تووہ اس خدا کو خطاب کرتے ہیں جومسیح سے غیر ہے(۲۔) یا اپنے آپ کو بحثیت
خدا خطاب کرتے ہیں۔ صورت اول سے تعددالہ لازم آتاہے اورصورت دوم سے تحصیل حاصل اول
وحدانیت کے اوردوم شان خداوندی کے برخلاف ہے۔
جواب۔
آپ کویادرکھنا چاہیے کہ حضور مسیح کی الوہیت کی بنیاد صرف ایک آیت پر نہیں بلکہ
تمام کتب مقدسہ پر مبنی ہے۔ پس آپ کا ایک آیت کو لے کر دوسری آیتوں سے چشم پوشی
کرنا بعینہ ایسا ہے کہ کوئی شخص فویل للمصلین" کولے اور" الذین ھمہ عن صلاتھمہ
ساھون" کوچھوڑدے حالانکہ ایک آیت کودوسری آیتوں پر حمل کرنا محققین کا فرض ہے۔ اس
اصول کی بناء پراگرآپ اس قسم کی آیتوں پر کہ" میں اول ہوں اورمیں آخر ہوں ابتدا ہوں
اورمیں انتہا ہوں" غورکرتے تویہ عقیدہ خود بخود حل ہوجاتاہے"۔
اگرحضور مسیح نے" ایلی ایلی " کہا تو اس میں کوئی دقت نہیں کیونکہ تمام گنہگار
انسانوں کے قائم مقام ہوکرآپ نے یہ فرمایا۔یا بعبارت دیگرگنہگار افسانوں پر گناہ کی
اہمیت ظاہر فرمائی کہ اگرکوئی انسان گناہ میں مریگا تویقیناً خدا اس سے منہ
پھیریگا۔یہ طرز کلام صرف انجیلی جلیل کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ قرآن بھی اس سے
بھرا ہواہے۔ مثلاً خدا کایہ کہنا کہ"لعلکمہ تشکرون" اور" لعلکم تتقون" خدا کی شان
کا برخلاف ہے کیونکہ" لعل" کلمہ ترجی ہے اورانسانوں کا کام ہے۔ پس اس کی تاویل بجز
اس کے اورکچھ نہیں ہوسکتی ہے کہ خدا انسانوں کا قائم مقام ہوکر یہ کہہ رہاہے۔
(۲۔)
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ" آیا اقانیم ثلاثہ کا مفہوم اورمسمیٰ ایک ہے"؟
جواب۔ بے شک ان کا مدلول وہ ازلی اورابدی خدا ہے
جوعلیم اور خبیر ہے۔ اگرآپ ان میں فرق یا امتیاز کے طالب ہیں توان میں وہی فرق
اورامتیاز ہے جوخدائے قدیر اورخدائے علیم اورخدائے حی میں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ
حیاتِ قدرت کی ماتحت ہے اورقدرت حیات کے پس ان میں جوفرق ہے وہ ہماری بہ نسبت ہے نہ
کہ خدا کی بہ نسبت ۔
مسلمانوں کی خدمت میں گذارش
اے نور کے سرچشمہ اورروشنی کے منبع!ہماری آنکھوں
کوروشن کر اور اپنی روح سے ہماری مددکرتاکہ ہم سمجھ لیں کہ درحقیقت توہی ہادی الی
الحق ہے۔ اورمسلمانوں کویہ توفیق عطا فرما کہ وہ اس ناچیز کی عرضداشت پرٹھنڈے دل سے
غورکریں۔
ہم میں مسلمانوں میں اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ
خدا نے انبیاء کے ذریعہ سے اپنی وحی نازل فرمائی اوراپنی شریعت کے امانت داروں کے
ذریعے اپنی آسمانی کتاب بھیجی جس کے ذریعہ سے ہم اس کی ذات، صفات ،افعال ، اورمرضی
کومعلوم کرسکتے ہیں۔ ہم میں اورمسلمانوں میں اگراختلاف ہے تواسی کتاب کے متعلق ہے۔
یعنی وہ ہماری کتاب کومحرف کہتے ہیں۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کوعقل سلیم ہرگز تسلیم
نہیں کرسکتی ہے۔ مسیحیوں کے پاس ان کی الہامی کتاب کی صحت پرہزاروں ایسی دلائل ہیں
جن میں سے ایک کی بھی تردید نہیں ہوسکتی ہے۔نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اپنی
دلائل یہاں گنائیں کیونکہ ہم مدعی علیھم ہیں اورمسلمان مدعی ہیں۔ چونکہ بارِثبوت
مدعی کا ذمہ ہوتاہے لہذا ہم مسلمانوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ کتب مقدسہ کی
تحریف پر ایسا حتمی اوریقینی ثبوت پیش کریں جس کوتسلیم کئےبغیر چارہ نہ ہو۔
مسلمانوں کایہ کہنا کہ قرآن میں یہ آیاکہ" ویحرفون الکلمہ عن مواضعہ" کافی نہیں
کیونکہ یہ دلیل نہیں بلکہ مصادرت ہے یعنی دعویٰ کودلیل کی صورت میں پیش کرنا ہے
جوناجائز ہے۔بلکہ ہم ایسا ثبوت چاہتے ہیں جونہایت بین ہو۔یعنی اگرآپ کوئی مستند
تاریخی ثبوت پیش نہیں کرسکتے ہیں توکم از کم اس بائبل کوپیش کریں جواصلی ہو
اورہماری موجودہ بائبل مقدس کے برخلاف ہو لیکن آپ یہ نہیں کرسکیں گے اورہرگز نہیں
کرسکیں گے ۔ کاش کہ آپ قرآن شریف ہی کوتعصب سے خالی ہوکر پڑھتے جس میں بیسیویں
آیتیں ایسی موجود ہیں جوتحریف کے دعویٰ کی تردید کرتی ہیں۔مثلاً حضور مسیح کے متعلق
یہ کہنا کہ" وبعلمہ الکتاب والحکمتہ والتوارہ وانجیل" الخ۔ الحکمتہ ثابت کرتاہے کہ
حضور مسیح کے زمانے تک الکتاب(بائبل) اپنی اصلی حالت میں موجود ۔ نیز احادیث سے
ثابت ہے کہ آنحضرت کے زمانے میں یہ کتابیں موجود تھیں اورانہی کتابوں پر آنحضرت نے
بارہا متنازعہ فیہ مسائل کا فیصلہ فرمایا۔ قرآن کا یہ کہنا کہ" ولیحکمہ اہل انجیل
بما انزل اللہ فیہ ومن لمہ یحکمہ بماانزل اللہ فیہ فاولک ھمہ الفاسقون" آنحضرت کے
زمانہ میں انجیل جلیل کے وجود اورصحت کی تصدیق کرتاہے۔
اے
میرے دوستو! کہاں قرآن کی شہادت سے بڑھکر شہادت ہوسکتی ہے کیا آپ قرآن شریف کی اس
شہادت کوقبول نہ کریں گے؟خدا آپ کو اورہم کوصراط المستقیم پرچلنے کی توفیق عنائت
فرمائے آمین۔
الاستبصار درتردید منار
جریدتہ المنار میں ایک مقالہ بعنوان" مسیحیت اوراسلام
میں تشدد" شائع ہوا ہے جس کے تحت میں آپ لکھتے ہیں کہ" مسلمانوں میں مذہبی عقائد کے
اختلاف کی وجہ سے کبھی تشدد نہیں ہوا اورسلف الصالحین میں جواپنے اسلاف کے نقش قدم
پرچلتے تھے اس کی مثال مل سکتی ہے۔اہل سنت والجماعت اوراہل اعتزال میں جوشدید
اختلافات ہیں وہ سب پرظاہر ہیں با ایں ہمہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے کہ ان
میں تشدد ویاکشت وخون ہوا ہو"۔
ہم
تویہ کہہ نہیں سکتے کہ المنار کے جیسے فاضل مدیر اسلام کی تاریخ سے واقف نہیں لیکن
یہ ضرور کہیں گے کہ آپ نے دیدہ ودانستہ حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے قبل اس کے
ہم اس حقیقت پر سے پردہ اٹھائیں یہ بتلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ تشدد کےمتعلق مسیحیت
کی کیا تعلیم ہے۔ انجیل جلیل کے مطالعہ کرنے سے بالوضاحت معلوم ہوتاہے کہ مسیحیت
میں اوردیگر مذاہب میں اگرکوئی بین فرق ہے تویہی کہ خون بہانا تودرکنار رہا کسی
پرغصہ ہونا بھی مسیحیت میں جائز نہیں ہے۔ حضور مسیح کے عین پیدائش کے وقت فرشتوں نے
دنیا کو خوشخبری سنائی وہ یہ ہے کہ " عالم بالا پرخدا کی تمجید ہو۔ زمین پرصلح
اوربنی آدم سے رضامندی"۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیحیت کی بنیاد صلح اوررضامندی پر
ہے۔ خود حضور نے ارشاد فرمایاکہ" اگرکوئی میری پیروی کرنا چاہتاہے تواپنی صلیب
اٹھاکر میرے پیچھے چلے" یعنی دنیا میں مظلوم ہوکررہے نہ کہ ظالم ہوکر دوسروں پرجبر
یا تشدد کرے۔
بے شک مسیحیوں کے اس طبقہ میں جوانجیل جلیل کی تعالیم
سے محض ناواقف تھا خال خال ایسے واقعات ہوئے ہیں جواگر نہ ہوتے تو عین مسیحیت تھا۔
لیکن ایک منصف مزاج شخص جب اس قسم کے واقعات کوانجیل جلیل کی تعالیم سے مقابلہ
کرتاہے تواُس کو معلوم ہوتاہے کہ ان کے افعال میں اورانجیل جلیل کے احکام میں دور
کی نسبت بھی نہیں ہے برخلاف ان کے جب ہم اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تواس کا
صفحہ صفحہ مذہبی تشدد اورمقاتلہ کے خون سے رنگا ہوا معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ مسلمانوں
کے طبقہ اولیٰ کے کشُت وخون کے متعلق ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمہ باب ولایتہ
العہد میں لکھتا ہے کہ:
"سوم
یہ کہ صحابہ اورتابعین میں لڑائیاں کیوں ہوئیں اوران کا اثر مذہب پرکیاپڑا جاننا
چاہیے کہ صحابہ وتابعین میں جوکچھ اختلاف ہوا وہ مذہبی واجتہادی اختلاف تھا اورہر
مجتہد اپنے اجتہاد پرمعقول دلیل رکھتا تھا اورجب متجہدین میں اختلاف ہوجائے اورساتھ
ہی ہم اس بات کے قائل ہوں کہ دومتغائر اجتہاد میں حق ایک ہی ہوگا اورجس مجتہد کی
رائے برحق نہیں وہی مخطی ہے۔ لیکن جب تک حق کسی ایک جانب متعین نہ ہوگا تودونوں
مجتہدوں کی نسبت احتمال اصابت باقی رہیگا اوربالیقین ان دونوں میں سے کسی ایک
کوخاطی نہیں کہا جائیگا۔ اوراگرہم یہ مانیں کہ دونوں اجتہاد حق اوردونوں مجتہد مصیب
ہیں تو اس صورت میں بطریق اولیٰ دونوں مجتہدوں کوگناہ وخطا سے بری سمجھنا چاہیے۔
غرضیکہ جواختلاف صحابہ وتابعین میں ہوا اس کے بارہ میں انتہاءً یہ کہا جاسکتاہے کہ
وہ ظنی مسائل مذہبی میں اجتہادی اختلاف تھا اوریہی مسلم ہے۔ اس قسم کے اختلاف
جواسلام میں واقع ہوئے ہیں وہ حضرت علی اورمعاویہ وزبیر وعائشہ وطلحہ کے واقعات
ہیں۔ یاوہ واقعات کہ حضرت امام حسین کویزید کے ساتھ اورابن زبیر کوعبدالملک کے ساتھ
پیش آئے"۔
کیا ان
مذہبی لڑائیوں کے بعد جن میں ہزاروں بچے یتیم ہوگئے اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہوگئیں
صرف صفین کی لڑائی میں تیس ہزار جانیں ضائع ہوگئیں اب بھی کوئی کہہ سکتاہے کہ اسلام
میں تشدد کا نام نہیں۔
اسی فصل کے آخر میں ابن خلدون کیا مزے کی بات کہتے
ہیں کہ:
"اسلئے ہرگزکسی صحابی یا تابعی کے حق میں بدگمانی
اوربدزبانی نہ کرنا چاہیے اورجوکچھ اُن سے وقتاً فوقتاً ہوا اس میں کسی طرح کا شک
کرنا واجب نہیں۔ ۔۔۔۔اورساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا اختلاف بعد میں
آنے والی نسل کے لئے رحمت ہے"۔سبحان اللہ کیا ہی خوب رحمت ہے"۔
واقعات
بالا سے صاف ظاہر ہے کہ مذہب کے لئے لڑنا اور تشدد کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب
اورخدا کی رحمت ہے۔
امام
مالک موطا میں لکھتے ہیں کہ ابی سہل نے کہاکہ ایک دن میں خلیفہ عمروابن عبدالعزیز
کے ساتھ جارہا تھا توآپ نے کہا کہ قدریہ فرقہ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔ میں نے
کہا کہ آپ ان سے توبہ کروائیں اوراگرتوبہ نہ کریں توان کو قتل کردیں۔ خلیفہ نے کہا
کہ میری بھی یہی رائے ہے تاکہ ان کی بدعت اورفساد ختم ہوجائے۔
دیکھئے !کہ صرف مذہبی امور میں بدعت کی غرض سے لوگوں
کا خُون مباح سمجھا جاتاہے اور اس کے قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا ہے۔
پھرآگے چل کر المنار کے فاضل مدیر صاحب لکھتے ہیں کہ"
مسلمانوں کے عہد خلافت میں عیسائی بڑے بڑے درجوں میں ممتاز تھے اوراُن میں سے نہایت
عزت کا سلوک کیا جاتا تھا" ا س میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیوں کوبڑے بڑے مناصب ملے
اوران کے ساتھ لطف اوراحسان کے ساتھ مسلمان پیش آتے تھے۔لیکن اس سے یہ استدلال
کرناکہ یہ تمام سلوک مذہبی رواداری کی وجہ سے تھے سراسرغلط ہے۔ کیونکہ قرآن میں صاف
حکم ہے کہ" اے مسلمانوں ! جو مسلمان نہ ہوں ان کو اپنا ازدان نہ بناؤ وہ تمہاری
تکلیف میں کوئی کسر نہ اٹھارکھیں گے تمہاری تکلیف سے ان کوخوشی ہوتی ہے ان کی باتوں
سے دشمنی ظاہر ہوگی اورجودشمنی ان کے دلوں میں چھپی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ہم
نے تم سے پتے کی باتیں کہہ دیں اگرتم سمجھ سکو"(۳: ۱۶)۔
پس
مسلمانوں نے جوکچھ کیا اپنے مذہب کے موافق نہیں بلکہ اس کے برخلاف کیا۔
سالم سے جوحضرت عمر کا آزاد کردہ غلام تھا روایت ہے
کہ حضرت عمر نے شام کے مسیحیوں کے متعلق ایک فرمان بھیجا جس کا مفاد یہ تھاکہ مسیحی
گھوڑوں پرسوار نہ ہوں اوراگر ہوں توبے زین گھوڑوں پراوراُن کے لباس مسلمانوں کے
لباس سے مختلف ہوں تاکہ پہچانے جائیں۔
روایت
ہے کہ ایک دن خلیفہ عمروابن عبدالعزیز کے پاس بنی تعلقب آگئے اورکہنے لگے کہ اے
امیر المومنین ہم عرب ہیں ہمارے فرائض ہمیں بتلائے جائیں۔ آپ نے کہا کہ کیا تم
عیسائی ہو؟ جی ہاں عیسائی ہیں خلیفہ نے حکم دیاکہ ایک حجام بلالاؤ حجام جب آیا
توحکم دیا کہ ان کی پیشانی کے بال کاٹ دو اوران کے کپڑوں سے ایک ایک ٹکڑا اکٹواکر
حکم دیاکہ اس سے کمر باندھو اورحکم دیا کہ زین پرکبھی سوار مت ہو۔
ایک
بار حضرت عمر ابوموسیٰ اشعری کوجوبصرہ کا گورنر تھا حساب دینے کے لئے طلب کیا۔ جب
وہ آئے تواُن کے ساتھ ایک عیسائی تھا جواُن کا اکونٹنٹ تھا حضرت عمر عمر نے اس
کودیکھ کرکہا کہ اے ابوموسیٰ تونے ایک ایسے شخص کومسلمانوں پر حاکم مقرر کیا ہے کیا
تونے نہیں سناہے کہ خدا قرآن میں فرماتاہے کہ" اے مسلمانوں تم یہودیوں اورعیسائيوں
کو اپنے دوست مت بناؤ" الخ تم نے کسی مسلمان کو کیوں اس عہدہ پر مقرر نہیں کیا۔ تب
ابوموسیٰ نے کہا کہ اے امیر المومنین اس کی کتابت میرے لئے ہے اوراس کا دین اس کے
لئے ہے۔
عمران
بن اسد کہتاہے کہ خلیفہ عمروابن عبدالعزیز کا فرمان محمد بن منشر کے پاس پہنچ گیا
جس میں یہ لکھتا تھا کہ ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ تمہارے حاکموں میں سے ایک شخص ہے جس
کا نام حسان بن برزی ہے جومسلمان نہیں خدا فرماتاہے کہ" اے مسلمانو!تم اہل کتاب کے
ساتھ جوتمہارے مذہب کوٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں دوستی مت کرواور نہ کافروں کے ساتھ الخ
جس وقت تمہارے پاس میرا یہ حکم پہنچے اسی وقت حسان کواسلام کی دعوت دواگروہ مسلمان
ہوگیا توہم میں سے ایک ہوگیا اوراگرانکار کرے تواس کوعلیحدہ کرو۔ حسان یہ سن کر
مسلمان ہوگیا۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ لازم ہے کہ اہل کتاب ہرباب
میں مسلمانوں سے علیحدہٰ ہوں لباس میں۔ ٹوپی دستار میں۔ اورتورات وانجیل کوزور کے
ساتھ نہ پڑھیں اورحجاز میں اورنہ مدینہ میں اور نہ یمامہ میں ان کورہنے کی اجازت دی
جائے۔
"کیا یہی اسلامی رواداری اورعفو درگذر ہے"۔
خاتمہ
خدا کے فضل اورعنایت سے ہم اس شخص کی مختصر سوانح
عمری سے فارغ ہوگئے جواپنی شجاعت۔ مذہبی غیرت اوراظہار حق میں بے مثل ویکتا تھا
اورجس نے سینکڑوں روحوں کوہلاکت سے بچالیا۔
جس طرح ہم نے اس کتاب کو اس عجز کے ساتھ شروع کیا تھا
کہ اس بے مثل زمانی، کتابی، اورعلمی وافعال کے جمع کرنے اورپیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اسی عذر کے ساتھ اس کوختم بھی کیا جاتا ہے۔ یقین واثق ہے کہ یہ کتاب اپنی کم بضاعتی
کے باوجود گم گشتگان راہ راست کے لئے شمع ہدایت کا کام دیگی اوراس کے مطالعہ سے مصر
میں بہت سے ایسے نوجوان پیدا ہونگے جوروحوں کے بچانے میں اپنے منجی کے حکم کی تعکیم
کرینگے۔
کامل منصور
[1]اے خدا تیری کاریگری تیرے وجود
پر کھلی دلیل ہے۔ اورتیرے آثار کے عوامل محتاج بیان ہیں۔
[2] یہ کمترین سراپا تقصیر محمد بن
محمدبن منصور کہتاہے کہ مغنی اللبیب پر تعلیق لکھنے کو اس شخص
نے کہا تھا جس کا حکم ٹالا نہیں جاسکتا اورنہ اس کی مخالفت کی
طاقت ہے وہ علامہ شیخ علی بدرہیں جس کے وجود سے خدا نے اس امت
کو بہرور کیا اوراپنے انعام اور بخشش کا ان پر فیضان کیا۔
اگرچہ میں ایک کم بضاعت شخص ہوں بحکم وللشی علی الشی مقائس
واشباہ اپنے آقا اورمولا پر اعتماد کرکے جوکچھ مجھ سے ہوسکا
کہہ ڈالا اوراسی پربھروسہ کیا۔
[3] اس بیماری
کوانگریزی میں (البیومی نوریا) کہتے ہیں ۔پیشاب کے ساتھ ایک
مادہ خارج ہونے لگتاہے ۔جس کو البیومن کہتے ہیں اگراس کا بروقت
اورفوری علاج نہ کیا جائے توتمام جسم میں زہر پھیل جاتاہے ۔جس
سے موت واقع ہوتی ہے(مترجم)
[4] پوری حدیث
یہ ہے کہ وعن عائشتہ قالت کان فیما انزل من القران عشر رضعات
معلومات یحرمن ثم ینسخن نجمس معلومات فتونی رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم وھوفیما یقرء من الصرا روہ مسلم (مشکوات باب
المحرمات)۔ ترجمہ: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ شروع میں قرآن میں
یہ آیت اُتری تھی کہ دس باردودھ پینا کہ یقیناً معلوم ہونکاح
کوحرام کردیتاہے پھریہ منسوخ ہوا پانچ باردودھ پینے کے ساتھ
جوآج تک قرآن میں پڑھی جاتی ہے اوراس کے بعد آنحضرت صلعم وفات
پاگئے" اس حدیث کومسلم نے روایت کیاہے۔(مترجم)
[5] اس کی اوپر
والی آیت میں فرماتے ہیں کہ " اورسوائے ایک کے اورکوئی خدا
نہیں"(مترجم)
[6] مرزا غلام
احمد قادیانی مدعی مسیحیت نے اگرکوئی اچھا کام کیا تویہی کیا
اس لئے "متوفیک" کے معنی موت کے لئے ہیں اورمسلمانوں کوچیلنج
کیا ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں فوت کا فاعل خدا آیاہے وہاں بجز
موت کے اورکوئی معنی نہیں ہوسکتے(مترجم)۔
|