(بقلم مسٹر اصغر الہٰی پال ،
ایم۔ اے ،ایل ایل بی ۔ لاہور)
۱:تفہیم کا اصول:
کسی حقیقت کی معقولی اوردرست تفہیم کااصول یہ ہے کہ ہم اُس
حقیقت کو اُسی رنگ میں سمجھیں اورسمجھائیں جس رنگ میں وہ
ہے۔ورنہ اس کو غلط طریق سے بیان کرنے اورسمجھنے سےغلط فہمیاں
پیدا ہونگی۔ لیکن ستم تویہ ہے کہ زید کچھ کہتاہے اورعمرواُسے
کچھ سمجھتاہے۔ پھر زید اورعمرو اُس موضوع پر بحث ومباحثہ کرتے
کرتے اپنی عمریں صرف کردیتے ہیں اورعالمِ فانی سے کوُچ بھی کر
جاتے ہیں لیکن اصل حقیقت پر پردہ ہی پڑا رہتاہے۔ جس کا نتیجہ
یہ نکلتاہے کہ نہ زید اپنے اصل خیال کی وضاحت کرسکا نہ عمرو اس
خیال کو بغیر تعصب کے سمجھ سکا ۔ لہذا ہر شخص کا فرض ہے کہ
اپنے خیالات کی صحیح ترجمانی کرے۔ اوردوسروں کے خیالات کواُنہی
معنوں میں سمجھے جن میں وہ پیش کئے گئے ہیں۔ ورنہ اس دنیا میں
توُ توُ مَیں میَں کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا۔ اورکوئی کسی کی
بات نہ سمجھ سکے گا۔
۲:انجیل شریف راوی حضرت یوحنا اور کلمتہ اللہ کافلسفہ:
ہم عیدِ ولادت المسیح کے موقع پر انجیل شریف راوی حضرت یوحنا
کے کلمتہ اللہ کے موضوع کو سپردِ قرطاس کرتے ہیں اوراُمید ہے
کہ قارئین کرام اس کو حضرت یوحنا کے خیال کے مطابق سمجھنے کی
کوشش کریں گے۔حضرت یوحنا فرماتےہیں : " ابتدا میں کلام تھا اور
کلام خدا کے ساتھ اورکلام حدا تھا۔یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ
تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ پیدا ہوئیں اورجوکچھ پیدا ہوا اُس
میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں
زندگی تھی اوروہ زندگی آدمیوں کا نورتھی اور نورتاریکی میں
چمکتا ہے اورتاریکی نے اُسے قبول نہ کیا"۔(انجیل شریف راوی
حضرت یوحنا رکوع ۱آیت ۱تا ۵)۔
جب رسول " ابتدا " کا لفظ استعمال کرتاہے تواس لفظ کا مفہوم
وہی ہے جوتوریت شریف کی پہلی یعنی پیدائش ۱: ۱ کے لفظ " ابتدا"
میں ہے۔یہاں خدائے تعالیٰ سے ایک فعل صادرہوا لیکن خدا کی ذات
کا وجود تمام زمانوں سےقبل موجود تھا۔ خدا کی اس حالت کو ازلیت
یاہمیشگی کہتے ہیں۔ اس حالت پر وقت کی کوئی قید نہ تھی (مقابلہ
کریں انجیل شریف راوی حضرت یوحنا رکوع ۱۷آیت ۲۴ اور خطِ افسیوں
رکوع ۱آیت ۴)۔
بعدازاں آپ اس ازلیت کے خیال کا ان الفاظ سے مقابلہ کریں
جومرقس ۱: ۱ میں پائے جاتے ہیں جہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں" سیدنا
عیسیٰ ابنِ اللہ کی انجیل کا شروع" اس آیت میں لفظ" شروع"
المسیح کی دینوی خدمت کی ابتدا ہے جیسے حضرت یوحنا بھی کہتے
ہیں" سیدنا عیسیٰ شروع سے جانتے تھے کہ جوایمان نہیں لاتے وہ
کون ۔۔۔۔۔وغیرہ(یوحنا ۶: ۶۴)۔
لہذا حضرت یوحنا انجیل شریف کے افتتاحی الفاظ میں اس خیال کو
پیش کرتے ہیں کہ خدا کاکلام یاکلمتہ اللہ یاابن اللہ زمان
ومکان کی قیود سے آزاد تھا اوروہ اپنی ذات میں ایک ازلی حقیقت
تھی ۔ حضرت پولس رسول بھی اس خیال کی تائید میں لکھتے ہیں" وہ
اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے موجود ہے"(خطِ
کلسیوں ۱: ۱۵)۔
ناسیہ کے عقیدہ میں بھی یہی الفاظ پائے جاتے ہیں کہ مسیح " کل
عالموں سے پیشتر اپنے باپ سے مولود " ہے اور یہی خیال عبرانیوں
کے خط میں بھی پایاجاتاہے کہ"بیٹے کی بابت کہتاہے کہ اے
خداتیرا تخت ابدالاآباد رہے گا اورتیری بادشاہی کا عصا راستی
کاعصاہے" (۱: ۸)"یہ بےباپ ، بےماں ، بے نسب نامہ ہے۔ نہ اُس کی
زندگی کاشروع نہ عمر کاآخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ہے"(۷:
۳) حضرت یوحنا کے مکاشفہ میں سیدنا مسیح کی ازلیت کے متعلق
مرقوم ہے" خداوند خدا جو ہے اورجوتھا اورجوآنے والا ہے یعنی
قادرِ مطلق فرماتاہے کہ میں الفا اور اُمیگا ہوں"(۱: ۸)۔
Arians اس بات کادعویٰ کرتے ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب
بیٹے کا وجود نہ تھا۔لیکن حضرت یوحنا کے یہ الفاظ کہ" ابتدا
میں کلام تھا اورکلامِ خدا کےساتھ تھا" اس بدعت کو ردکرتے ہیں
اورثابت کرتے ہیں کہ بیٹے کاوجود وقت کے شروع ہونے سے قبل
موجود نہ تھا"۔
۳: لفظ لوگاس یعنی کلام
لفظ" لوگاس" یونانی کی ایک اصطلاح ہے۔ دوسری صدی میں اس کے
دوترجمے کئے گئے یعنی سرمو اور ذربم ۔ مسیحی عالم ٹرٹولین نے
بھی اس لفظ کے دوترجمے کئے ہیں۔ اس کا مفہوم نہ صرف وہ الفاظ
ہیں جو بولے جاتے ہیں بلکہ وہ الفاظ بھی ہیں جو خیال کی
ترجمانی کرتے ہیں ۔ لوگاس ایک بڑی عجیب اصطلاح ہے اورہم اس کی
مختصر سی تاریخ پیش کرتے ہیں۔ اس لفظ کی ابتدا تارگم میں پائی
جاتی ہے۔ تارگم عبرانی کتُب کی تشریحات کانام ہے۔ یہ خاص
عبرانیوں کی چیز ہے۔ یہ یونانی اورعبرانی تہذیبوں کے ملنے سے
پیدا نہیں ہوئی تھی ۔
اگرہم غور سے عہدِ تحقیق کا مطالعہ کریں توہمیں معلوم ہوجائے
گا کہ کلام یا الہٰی حکمت ایک مشخص حقیقت ہے اور یہ الہٰی مرضی
کے اظہار کاایک وسیلہ ہے۔
(الف) پیدائش کی کتاب میں بار بار آتاہے " خدا نے کہا" (ملاحظہ
ہو پیدائش۱: ۳۔ ۶: ۹۔ ۱۱، ۱۴)۔
(ب)زبوروں میں بھی کلام اللہ کے مشخص ہونے کا خیال پایاجاتاہے
۔ مثلاً آسمان خدا کے کلام سے اوراس کا سارالشکر اُس کے منہ کے
دم سےبنا"(زبور ۳۳: ۶)۔
(ج) امثال کی کتاب کے ۸ اور ۹ ابواب میں خدا کی محبت مشخص
طورپر پیش کی گئی ہے۔ مثلاً کیا حکمت پکار نہیں رہی اورفہم
بلند آواز نہیں کررہا؟(امثال ۸: ۱)۔" حکمت نے اپنا گھر بنالیا
۔ اُس نے اپنے ساتوں ستون تراش لئے ہیں'(۹: ۱)۔
اگرچہ خدا کی حکمت نے بڑی قوت سے بڑے بڑے کاموں کے وسیلے اپنا
مظاہرہ کیالیکن ابھی تک دنیا میں اس حقیقت کا ظہور ہونا تھا کہ
خدا کی محبت ہے۔
(د) اپوکریفا میں خدا کی حکمت زیادہ مکمل طریق سے مشخص طورپر
نظر آتی ہے۔ (پڑھیں یشوع بن سیراخ کی کتاب ۱۱: ۱۔ ۲۵۔ اور ۲۴:
۲۲)۔
مثلاً وہاں مرقوم ہے" ساری حکمت خداوند کی طرف سے ہے اورابدتک
اُسی کے ساتھ ہے" اورپرلکھا ہے" دانائی خود اپنی تعریف کرے گی
اوراپنی اُمت کے درمیان فخر کرے گی۔ خدا تعالیٰ کی جماعت میں
وہ اپنا منہ کھولے گی اوراُس کی قدرت کے حضور میں فخر کرے گی ۔
میں خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلی ہوں اورکبُرکی طرح زمین کو
ڈھانپ لیا تھا"(۲۴: ۱- ۳)نیز حکمت کی کتاب ۶: ۲۲سے ۹: ۱۸) میں
خدا کا کلام خدا کے غضب کا وسیلہ بنالیتا ہے۔
(ر) تارگم یا عہدِ عتیق کی آرامی تشریحات میں کلام کا یہ تصور
زیادہ ترقی کرتا ہوانظر آتاہے۔ سیدنا عیسیٰ مسیح کے وقت
یہودیوں کے ہاں ایسی ایسی اصطلاحات مروجہ تھیں جن کے اثرات سے
یہودی لوگ ذاتِ الہٰی کو مادی مخلوقات سے علیحدہٰ رکھتے تھے۔
عہدِ عتیق میں ذاتِ واجب کا تعلق انسان سے بلاواسطہ بتایا گیا
ہے۔ مثلاً اگرپیدائش کی کتاب میں یہ مرقوم ہے کہ" اُنہوں نے
خداوند خدا کے کلام کی آواز کو سنا" ۔ وغیرہ وغیرہ
۴: فیلوکا فلسفہ
موسوی کتب کے ایک تارگم میں(خدا کے کلام ) کے الفاظ ۱۵۰ دفعہ
استعمال کئے گئے ہیں۔یہی خیال ہمیں اسکندریہ کے یہودیوں کے
فلسفہ میں بھی نظر آتاہے۔ ان یہودیوں کی تھیاسفی (Theosophy)
میں علمِ الہٰیات ، فلسفہ اورعلمِ معرفت ملا جلا تھا۔ اُن کے
ہاں بھی الہٰی کلامِ یاحکمت کے مشخص ہونے کا کسی قدر خیال پایا
جاتاہے۔ مثلاً فیلو جومذہبی تصورات اورفلسفہ کا ایک مایہ ناز
عالم تھا۔ اپنے فلسفہ میں جدید تصورات کو شامل کرتاہے۔ تاہم
اُس کے فلسفہ میں لوگاس کا موزوں تصور نہیں ملتا۔
فیلو کے ہاں یہ خیال توتھا کہ لوگاس یعنی کلام کوئی وسیلہ ہے
جس سے خدا نے مادی مخلوقات کو تخلیق کیا اوراس کے وسیلے وہ
انسان سے کلام کرتا ہے۔ لیکن یہ خیال کہ کیا لوگاس ایک وجود ہے
یاایک سے زائد یا کیا۔ لوگاس کا ایک مشخص ہستی ہے یا نہیں ؟ اس
موضوع پر فیلو کوئی قطعی فیصلہ نہ دے سکا۔
لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیلو کا لوگاس حضرت یوحنا
کے لوگاس سے بالکل جدا تھا۔ اس کی نہ توشخصیت تھی اورنہ ہی وہ
مسیح کی طرف سے منسوب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فلسفہ دان لوگاس
کے صرف ایک ہی پہلو پر زور دیتا تھا۔ اس کے لوگاس کا مفہوم صرف
الہٰی عقل تھی۔ اس کے برعکس تارگم میں جو تصور پایا جاتاہے۔ اس
کا مفہوم کلامِ الہٰی یا کلمتہ اللہ ہے جس میں خدا کی مرضی
شخصی عمل میں ظاہر ہونے کا خیال ہے۔ اس میں فیلو کے خیال کی
طرح الہٰی حکمت کے فلسفیانہ تصور کی طرف اشارہ نہیں۔ حضرت
یوحنا موخرالذکر خیال سے اپنا فلسفہ پیش کرتاہے"۔
(۵۔) نتائج
مذکورہ خیالات کے مطالعہ کرنے کے بعد ہم ذیل کے نتائج حاصل
کرتے ہیں۔
۱۔ عہد عتیق میں کلام الہٰی کی مشخص حقیقت زیادہ تر شاعرانہ
رنگ میں پیش کی گئی ہے۔
۲۔ فلاسفر فیلو لوگاس یعنی کلام کو عقلی فلسفہ کے رنگ میں پیش
کرتاہے۔
۳۔حضرت یوحنا کلامِ الہٰی کو تاریخی رنگ میں پیش کرتا ہے۔
۴۔اپوکریفا اورتارگم عہد عتیق کے شاعرانہ تصور کو اور فیلو کے
عقلی تصور کو مکمل کرتے ہیں لیکن حضرت یوحنا کی ترجمانی کلام
کے تاريخی حقائق کو بیان کرتی ہے جس سے مادی وغیرمادی دنیاؤں
کو ملایاجاتاہے۔ لہذا حضرت یوحنا کے مطابق انجیل اس بات کا ذکر
کرتی ہے کہ لوگاس یعنی کلام تاریخی طورسے مجسم ہوا اوریہ مجسم
لوگاس زمان ومکان کی قیود میں آیا اوریہ سیدنا مسیح کی زندگی
ہے۔
۶۔ حضرت یوحنا کا لوگاس یعنی کلام
حضرت یوحنا کا لوگاس محض خدا کی صفات کا مظاہرہ نہیں کرتابلکہ
وہ ابن اللہ کے نام سے موسوم ہے اوروہ ازل سے ہے اوروہ اب زمان
ومکان میں مسیح کی شخصیت میں ظاہر ہواہے۔ اس لوگاس یعنی کلام
کے وجود میں وہ کلام ہے جوازل سے مخفی تھا۔ جوکلام خدا انسان
سے کرنا چاہتا تھا۔ حضرت یوحنا اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ
کلام ذات واجب کی طبیعت ان کے مقاصد اوراس کی مرضی کا زندہ
مظہر ہے ۔ فرمایا ہے: اس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے
تھا اورجسے ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے
دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا"(۱۔یوحنا ۱: ۱)۔
دنیاکی تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ انسانی عقل لامحدود ذات
الہٰی اوربنی نوع انسان کے مابین ایک تعلق پیدا کرنا چاہتی ہے
تاکہ انسان خدا تک رسائی حاصل کرے۔حضرت یوحنا لوگاس کے عقلی
مفہوم کی بجائے سیدنا عیسیٰ مسیح استعمال کرکے وہ اس تصور میں
ان مشاہدات وتجربات وعلم کو جو وہ سیدنا مسیح کی ذات کے متعلق
جانتا تھا۔ پیش کرتا ہے ۔ حضرت یوحنا کہتے ہیں کہ" اُس میں
زندگی تھی" اس کا مفہوم یہ ہے کہ تجسم سے قبل وہ ہر نوعیت کی
زندگی کاسرچشمہ تھا۔ اوراُس میں مادی ، عقلی، اخلاقی ، روحانی
اور ازلی قدرتیں تھیں۔لہذا اس خیال کے مطابق سیدنا عیسیٰ مسیح
کی آمد کا مفہوم ہرقسم کی آسمانی نعمتوں کی آمد ہے۔ علامہ پنڈت
برج موہن یفی کا ایک شعر اس خیال کی ترجمانی کرتاہے فرمایاہے:
شیر گل تخت گلبن سے اُتر کر اس سے ملتاہے
توجُس سبزے کے اس گلزار میں بیگانہ سمجھا ہے
نسلِ انسانی کو سیدنا عیسیٰ مسیح کی آمد کی ضرورت ہے
آج کی دنیا نے علوم وفنون میں بے حد ترقی کرلی ہے اورحضرت
انسان نےایسی ایسی چیزیں ایجاد کی ہیں جنہیں پُرانے زمانے کے
لوگ طلسم ہی کہتے ہیں۔ یہ علمی ترقی بنی نوع انسان کو متحد
کررہی ہے تاکہ انسان ہر قسم کے تعصب اورہر طرح کی اختلافی
باتوں کے باوجود ایک ایسے مقام پر آجائے کہ وہ خدا کی پاک مرضی
کو پورا کرسکے ۔ لیکن حیف کہ ابھی تک انسان اپنی ا نسانیت میں
ترقی نہیں کررہا۔ان حالات میں سیدنا عیسیٰ مسیح کی آمد کمزور ،
متعصب ، گنہگار انسانیت کے لئے ایک خوشخبری ہے کیونکہ اُس کی
زندگی سے انسانیت صلح وسلامتی ، حقیقی علم ومعرفت ، دانائی ،
عقل الہٰی پاکیزگی اورالہٰی مرضی کا احترام پیداہوتاہے۔
حضرت یوحنا فرماتے ہیں کہ" جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے
اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جواُس کے نام
پر ایمان لاتےہیں ۔۔۔۔۔۔۔" کیونکہ اُ س کی معموری میں سےہم
نےپایا یعنی فضل پر فضل اس لئے کہ شریعت توموسیٰ کی معرفت دی
گئی مگر فضل اور سچائی سیدنا عیسیٰ مسیح کی معرفت پہنچی۔خدا کو
کسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے اُس
نے ظاہر کیا"(یوحنا ۱۶: ۱۸)۔
آج کی خوفزدہ انسانیت کے لئے جس میں نسلی اورقومی امتیازات
پائے جاتے ہیں ۔ سیدنا عیسیٰ مسیح کی آمد ایک آسمانی تحفہ
ہے۔وہ ہر انسان اورہر قوم کو عدل وانصاف ، ہمدردی وپیار ،
الہٰی علم ومعرفت بخشتاہے ۔ اُس میں انسان اورخدا کا ملا پ ہے۔
|