·
قرآن مجید کا
تیسرا حکم واعلان
قرآن مجید نے مصدق صادق اورمحافظ
کلام ہونے کا دعویٰ عام کیا ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۷۵ میں
اُسے کلام اللہ تسلیم کیا اوروہ سچ ہے سچا کرنے والا
اُس کو جوساتھ اُن کے ہے۔ سورہ بقرہ ۹۱آیت سچا کرنے
والا واسطے اُس چیز کے آگے اُس کے ہے اورہدایت
وخوشخبری واسطے ایمان لانے والوں کے بقرہ ۱۹۷ آیت ۔
سچا کرنے والا واسطے اُسکے جوپاس اُن کے ہے۔ پھینک دی
ایک جماعت نے اُن میں سے جودئیے گئے ہیں کتاب۔ کتاب
اللہ کی کو۔بقرہ آیت ۱۰۱ آیت۔ اصل کتاب بقرہ ۱۰۵ اور
اُتاری ہم نے تیری طرف کتاب ساتھ حق کے سچا کرنے والی
اُس چیز کو کہ آگے اُس کے ہے۔ کتاب سے اورنگہبان اُوپر
اُس کے ۔المائدہ ۴۸ آیت۔ یونس ۳۷ آیت۔ سورہ یوسف ۱۱۶
قرآن صرف تفصیل وتصدیق کرنے والاہے۔ پاتے ہیں اس کو
لکھا ہوا بیچ توریت کے اورانجیل کے سورہ الاعراف ۱۵۷
پس قرآن اہل کتاب کے لئے نئی اورنازل شدہ کتاب نہیں
بلکہ نقل ہے کتابوں کی یہ قرآن البتہ مذکور ہے۔ بیچ
کتابوں پہلے پیغمبروں کی۔ سورہ الشعرراء ۱۹۶۔ ان
اعلانات کے باوجود اگرکوئی قرآن مجید کو کلامِ حق
اوراولین ایمان وصراط المستقیم کے برعکس کسی اورایمان
کی پیروی کرے تووہ قصداً قرآن کی صداقت وتصدیق کا
مخالف ہے۔ اس لئے ہم دنیا کے ہر فردبشر سے یہ تحدی
مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مخالفِ صراط المستقیم اولین
ہوتے ہوئے ثابت کرے کہ قرآن مجید کی تصدیق غلط ہے۔
یاسورہ النساء۷۹آیت کے خلاف قرآنی تضاد واختلاف کثیر
ثابت کرے کہ کب قرآن مجید نے کتب مقدسہ کی تلاوت سے
مخالفت اوراُس کے بیان کروہ ایمان سے علیحدہٰ کسی
اورایمان کے اختراع وایجاد کا حکم دیا۔ہمارا دعویٰ ہے
کہ قرآنی احکام سے ارتداد وانحراف کرنے والا کوئی ایک
بھی کوئی قرآنی آیت پیش نہ کرسکے گا۔
·
مسیحی ایمان
اورتصدیقِ قرآن
رسولی عقیدہ جوہر مسیحی کا ایمان
ہے۔
" میں ایمان رکھتاہوں خدا قادر
مطلق باپ پر جس نے آسمان وزمین اورسب کچھ جو اُن کے
بیچ میں ہے بنایا۔
" سن لے اے اسرائیل خداوند ہمارا
خدا واحد خدا ہے۔ (توریت شریف کتابِ استشنا رکوع ۶آیت
۴۔ صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع ۴۱آیت ۸۔ انجیل شریف راوی
حضرت مرقس رکوع ۱۲: ۹۔ حضرت یوحنا رکوع ۱۷: ۳۔
۱کرنتھیوں ۸: ۴تا ۶)۔
قرآن مجید نے بارہا اسی کی تلقین
کی اورکوئی شخص اس کے خلاف بیان کرنے کی جرات نہیں
کرسکتا۔
۲۔ میں ایمان رکھتاہوں اُس کے
اکلوتے بیٹے سیدنا عیسیٰ مسیح پر جوروح القدس کی قدرت
سے مریم بتولہ کے مبارک بطن سے پیدا ہوا۔
علاوہ اس کے جب ہمارے آسمانی باپ
ہمیں تنبیہ کرتے تھے اورہم اُن کی تعظیم کرتے ہے۔
توکیا روحوں کے باپ کی اس سے زیادہ تابعداری نہ کریں
جس سے ہم زندہ ہیں" (عبرانیوں ۱۲: ۹)۔ لیکن جتنوں نے
اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق
بخشا"(یوحنا ۱: ۱۲)۔
انسان کا جسم مٹی میں سے پیدا ہونے
والی خوراک کے اجتماع ،کیمیائی ایک جسم میں ذخیرہ ہونے
سے فعلِ تعلق جنسی کے بعدشکم مادر سے عرصہ معینہ کے
بعدظاہر ہویدا ہوتاہے۔ اوریہ جسم فنا کے قبضہ میں ہے
جو بلاآخر نیست ہوتاہے۔ مگرحیوانات سے بڑھ کر نوع
انسانی میں خدا روح نے اشرف المخلوقات ہونے کی فضیلت
مخلوق مگرغیر فانی روح پیدا کی۔ اورروح اورمادہ ہر
دوعالم بالکل مختلف ہیں۔ مٹی سے انسان اولین کا جسم
بغیر توسط کے بنایا۔ مگرروح مادیات سے علیحدہٰ عالم
ارواح میں پیدا کی گئی چونکہ روح مادیات میں سے پیدا
نہیں ہوئی اس لئے خدا مخلوق روحوں کا خالق ہونے کی
حیثیت سے باپ ٹھہرا۔ بعینہ فرشتگان مخلوق روحیں ہیں۔
مگرمادیات سے بے نیاز، اورروح کی تخلیق کے لئے کوئی
مخلوق چیز وذریعہ یاتوسط نہیں۔ اس لئے خدا کے سوا روح
کا باپ ہونے کی کسی اورکوقدرت یاحق نہیں ۔
حدیث شریف نے بھی روزِ میثاق میں
روح کی پیدائش وتخلیق میں کسی مخلوق چیز کو ذریعہ
اورواسطہ نہیں بیان فرمایا پس ارواح انسانی یا مخلوق
روحوں کے باپ خدا سے صرف اضافی فرزندیت رکھتی ہیں نہ
کہ ذاتی۔
مگر سیدنا عیسیٰ مسیح کے اکلوتے
بیٹے کی اصطلاح ان معنوں میں نہیں ۔ بلکہ قرآن مجید نے
تصدیق فرمائی ۔ کہ سیدنا عیسیٰ مسیح کا جسم صورت
انسانی اجزا کیمیائی زمینی سے نہیں بنا۔ بلکہ کلمتہ
اللہ جوتمام مخلوقات کا ذریعہ تخلیق تھا، وہ اپنی قدرت
کاملہ اورباپ کی مرضی کے مطابق انسانی جسم میں ظاہر
ہوا ۔ جس وقت کہا فرشتوں نے کہا اے مریم تحقیق اللہ
بشارت دیتاہے تجھ کو ساتھ کلمہ اپنے کے اُس کا نام
مسیح ہے۔ (سورہ العمران آیت ۴۵)۔
اورکلمہ اُس کا ڈال دیا اُس کی طرف
مریم کے اورروح اُس (اللہ)کی۔سورہ النساء ۱۷آیت ۔ آیات
کریمہ میں قرآن مجید مصدق ، صادق اورشاہد بے بدل ہے۔
کہ سیدنا عیسیٰ مسیح کا ظہورِ دیدنی وتجسم کلمہ خالق
سے ہوا۔ اس لئے اُسے انسان خاکی تصور وتسلیم کرنے والے
مخالفِ قرآن مجید اورصراط المستقیم سے بہت دور ہیں۔
کیونکہ ہر جسم کلمہ حق کی قدرت سے بنا اورمخلوق ہے۔
مگر کلمتہ اللہ خود خالق ہے ، کوئی اُس کا خالق نہیں۔
پھر اعلان فرمایا کہ کلمتہ اللہ صورت انسانی میں مخلوق
روح نہ تھا۔ جس کے باعث اُسے محض انسانِ خاکی تصور کیا
جائےبلکہ فرمایا کہ روح منہ سورہ النساء ۷۱ آیت۔ پس
بھیجا ہم نے طرف اُس کی روح اپنی کو کہ مرد کامل کی
صورت اختیار کرے۔سورہ مریم ۷۱آیت۔
پس پھونک دیاہم نے بیچ اُس کے رو
اپنی کو اور کیا ہم نے اُس کو اوربیٹے اُس کو نشانی
واسطے عالموں کے سورہ الانبیا ۹۱آیت۔
پس قرآن مجید مصدق صادق شائد ہے کہ
الہٰی روُح کے نفخ اورکلمتہ اللہ کے تجسم کے باعث صرف
سیدنا عیسیٰ مسیح کی ذات حی القیوم ہی اکلوتا بیٹا کا
مستحق ہے اور یہ اصطلاح واعزاز کبھی کسی مخلوق کے لئے
استعمال نہیں ہوا۔ اور مخالفت کرنے والے قرآن کے باغی
ہیں۔
اعتراض: مخالفینِ قرآن مجید فرمایا
کہ اُس (اللہ) کی کوئی بیوی نہیں ، اوراس کے جواز میں
چند متشہبات قرآنی پیش کرتے ہیں۔
۱۔ہم بارہا بیان کرچکے ہیں کہ قرآن
مجید کا روئے سخن بُت پرست عرب کی طرف تھا۔ بُت پرستوں
کے لئے قرآن مجید نے فرمایاکہ وہ فرشتوں کو خدا کے
بیٹے اوربیٹیاں کہا کرتے تھے۔ اوردیوتاؤں اور بیٹوں پر
مرد ہونے کا فخر کرتے تھے۔ اُن کی تردید کے لئے یہ
کافی تھا۔ کہ خدا کی کوئی بیوی ہی نہیں تواولاد کیسی!
۲۔ اہل کتاب واہلی خردودانش کے لئے
مذکورہ آیات میں روشن فرمایاکہ تجسم اللہ کا ظہور
الہٰی ذات میں سے معرض وجود میں آیا۔
۳۔ مخالفینِ قرآن نے اہلِ دانش کے
مخالف گروہ کی تقلید ۔۔۔۔ تصدیق صادق اور احق سے
روگردانی کی۔ ہم اُن سے ایک ہی بات کا مطالبہ کرکے
منتظر جواب رہیں گے۔ قرآن مجید نے بارہا فرمایا کہ جب
مریم صدیقہ نے اپنے فعلاً وخیالاً فعلِ تعلق جنسی طرز
تولید موجود سے بالکل مبرہ ومنزہ اورپاک دامن کا دعویٰ
کرکے اپنی حالت بکرات کوخدا اوراُس کے فرشتوں سے تسلیم
کروایا توملاکہ یہ سب توبرحق ہے مگرخدا کے کہنے سے ہی
سب کچھ ہوجاتاہے ۔ سورہ آل عمران ۴۷آیت ۔ لیکن مخالفین
قرآن کے لئے قرآنی قول کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ وہ بضد
ہیں کہ خدا کی (خدا معاف فرمائے) بیوی ہونی لازم
اوراُبدی ہے، ورنہ قرآنی اقوال کووہ کیا کریں۔ کیا
مخالفین قرآن کے دماغ اورخیال میں خدا کی ذات کی
اختراعی تصورکے لئے ژدلیدگی بھری ہوئی نہیں ؟ وہ خدا
کو محض خاکی مردتسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ نورانی مخلوق
شہوت سے مبرا ہے تونورانی مخلوق کا خالق اس سے کیسے
ملوث ہوسکتاہے۔ پھر فعل مجامعت کے لئے دوجسموں کا ہونا
اشد ضروری ہے۔ خدا کے لئے وہ کون سا جسم تسلیم کرتے
ہیں۔ افسوس وہ خدا روح سے تاقیامت انکارکرتے رہیں گے
حالانکہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات میں کہ خدا روح
ہے بیان ہواہے۔ علاوہ ازیں سورہ الانبیاء میں لکھاہے۔
جس دن کہ پھونکا جائے گا صور پس آؤگے تم فوج فوج ۔
۸۱آیت ۔ تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ ہوگا۔
اُس دن کھڑی ہوگی روح (خدا کے لئے
) اورفرشتے صف باندھ کر ۳۸آیت۔ قابعین نام نہاد
ومخالفین قرآن مجید جب یہ پڑھتے ہیں ۔ اورمت نااُمید
ہوروح اللہ سے تحقیق نہیں ہوتے نااُمید روح اللہ
مگرقوم کافروں کی۔ سورہ یوسف ۸۷آیت اورجب کلمے پڑھتے
ہیں ۔ تو لا الہ الا اللہ عیسیٰ روح اللہ۔ سورہ یوسف
میں مرقوم اسی لفظ روح اللہ کے ترجمہ وتفسیر کےو قت
ژدلیدگی دماغوں میں بھرجاتی ہے۔ پس ازروئے قرآن مجید
مصدق صادق روح اللہ خدا ہے۔ اورتجسم روح اللہ وصورت
مسیح کے مخالفین قرآن مجید سے باغی ہیں۔ہم تمام
مخالفین کو چیلنج عام کرتے ہیں کہ آوہر صورت روح اللہ
میں اختلاف کی وجہ بیان کرو۔
کاش کہ مخالفینِ قرآن اسے تسلیم
کرتے تو اُنہیں صراط الذین جن پر خدا نے نعمتیں کیں
اُن کے ایمان میں شامل ہوکر یہ اقرار کرتے کہ خدا روح
انسانی جسم میں ظاہر ہوا اورغیر دیدنی ازلی وابدی جلال
سے ظاہر ہوکر اکلوتا بیٹا کی اصطلاح سے انسانی الفاظ
میں پکارا گیا۔ یہ اصطلاح صرف اہل ایمان کے لئے قابلِ
قبول ہے۔حضرت داؤد نے ازراہ الہام فرمایا" بیٹے کو
چومو، ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئےاورتم راہ میں ہلاک
ہوجاؤ۔ "(زبور ۲: ۱۲)" اوراس کے بیٹے کا کیا نام
ہے"(امثال ۳۰: ۴)۔ " اورچوتھے کی صورت خدا کے بیٹے کی
سی ہے"(دانی ایل ۳: ۲۵)۔ " توزندہ خدا کا بیٹا مسیح
ہے"(یوحنا ۶: ۶۹)۔
مگر بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے
اُسے قبول نہ کیا" اس لئے یہودی اوربھی زیادہ اُس کے
قتل کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ صرف سبت کا حکم توڑتاہے
۔ بلکہ خدا کو اپنا خاص باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے
برابر بناتاہے(یوحنا ۵: ۱۸)پس یہود کے اس انکار کے
باعث قرآن مجید نے اُنہیں کافرقرار دیا۔ اورہرمنکر اسی
فتویٰ کے ماتحت ہے جو تصدیقِ قرآنی کا مخالف ہے۔
ب۔ وہ روح القدس کی قدرت سے پیٹ
میں پڑا(لوقا ۱: ۳۵، متی ۱: ۱۹تا ۲۱)۔ قرآنی تائید
سورہ النساء ۷۱آیت ، سورہ مریم ۱۷آیت ۔ اس سے انکار
صرف منکرین قرآن کا کام ہے۔
ج۔ کنواری مریم سے پیدا ہوا(یسعیاہ
۷: ۱۴۔ متی ۱: ۲۳۔ لوقا ۱: ۳۲)۔ قرآنی تائید ۔ کہا اے
میرے رب کیونکر ہوگا۔ واسطے میرے بچہ اورنہیں ہاتھ
لگایا مجھ کوکسی آدمی نے ۔ سورہ آل عمران ۴۷آیت ۔ سورہ
انبیاء ۹۱آیت ۔ پس قرآنی شہادتوں اور تصدیق کے باعث سچ
مان کر یقین کرنا صرف مخالفین قرآن ہی کا ایمان ہے۔
د۔ پنطوس پلاطوس کی حکومت میں دکھ
سہا ۔چونکہ تواریخ یہودی ورومی اُس کے شاہد ہیں۔ قرآن
مجید نے صرف دشمنوں کا ذکر کیا ہے۔ کہ یہود اُس کے
منکر اورمخالف اورمدعی قتل تھے۔ کون ہیں مدد دینے والے
مجھ کو طرف اللہ کے سورہ آل عمران ، سورہ الصفت ۱۴آیت
۔ مخالفین حق میں سے تابعین حق کو علیحدہٰ کیا۔
مصلوب ہوا ۔ اوربسبب اُن کے کہنے
کے کہ تحقیق ہم نے مار ڈالا مسیح بیٹے کو ،،،،، سورہ
النساء آیت ۵۷۔ اورنہیں مارا اُسکو نہ سولی دی۔ لیکن
یہ اُن کا ۔۔۔۔۔۔ نہ مارا اُس کو بریقین (۱۵۷) تابعین
قرآن مجید بھی اس آیت کے مختلف ومعنی کرتے رہے۔لیکن
اگربالمقابل انجیلی بیان کو رکھ کر پڑھا جائے تومطلب
وحقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
" جب وہ خدا کے مقررہ انتظام
اورعلم سابقہ کے موافق پکڑوایا گیا توتم نے بے شرع
لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کرواکر مار ڈالا"(اعمال
۲: ۲۳)۔سیدنا مسیح کی اپنی موت کے بارے میں
پیشینگوئیاں(متی ۲۰: ۱۷تا ۱۹۔ مرقس ۱۰: ۳۳، ۳۴۔ لوقا
۱۸: ۳۱تا ۳۴)ان سب آیات سے واضح ہے کہ قرآنی تصدیق
صادق کے مطابق یہود نے اُسے قتل ومصلوب نہیں کیا
مگراُسے رومی حکومت کے حوالے کرکے بشدت مطالبہ کیا۔ پس
بقول قرآن مجید یہودیوں نے اُسے صلیب نہیں دی یہ اُن
کا ظن اورگمان ہے۔ کیونکہ وہ محکوم وغلام قوم تھی۔
لیکن اُنہوں نے وقت کے حاکم سے مطالبہ کیا جوحکومت نے
پورا کیا۔
س۔ وہ مرگیا۔ قرآن مجید نے علیٰ
اعلان تصدیق صادق فرمائی۔ قال اللہ عیسیٰ انی
متوفیک۔کہا اللہ نے اے عیسیٰ تحقیق میں تجھے موت دوں
گا۔ فلما توفیتنی پس جب تونے مجھے موت دی۔ سورہ
المائدہ ۱۱۷آیت ۔ پس قرآن مجید انجیل مقدس اور صراط
الذنین کے ایمان کے مطابق اورتواریخ کی شہادت کے
ہمزبان تصدیق فرماتاہے جس سے انکار صرف مخالفِ قرآن ہی
کرسکتے ہیں۔
د۔ تیسرے دن (موت اورقبر پر فتح
پاکر) جی اٹھا۔ اورآسمان پر تشریف لے گیا اورخدائے
قادرمطلق باپ کے دہنے جابیٹھا۔ قرآن مجید نے فرمایا
قال یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی ومطہر من الذین
کفرو۔ کہا اللہ تعالیٰ نے اے عیسیٰ تحقیق میں تجھے موت
دوں گا اوراٹھالوں گا طرف اپنی اورپاک کروں گا تجھ کو
کافروں سے۔ سورہ آل عمران ۵۵آیت۔
یل رفعہ اللہ الید ۔ بلکہ اٹھالیا
اُس کو طرف اپنی۔ سورہ الذما ۱۵۷ آیت۔
سورہ آل عمران ۵۵آیت کی ترتیب
واسلوب بیان انجیل مقدس یاکلام حق کی تصدیق ہے۔ کہ
سیدنا عیسیٰ مصلوب ہوئے اورشہید کئے گئے۔ پھر زندہ
ہوکر آسمان پر تشریف لے گئے جہاں آپ کے دشمنوں کوپہنچ
کردکھ پہنچانے کی مجال ومجاز نہیں۔
صحائف الانبیاء کی پیش گوئیاں حرف
بحرف پوری ہوئیں۔ دانی ایل نبی نے نبوت کی اورباسٹھ
ہفتوں (یعنی ۴۳۴ نبوی سالوں )کے بعد مسیح قتل کیا جائے
گا۔(دانی ۹: ۲۶۔ یسعیاہ ۵۳ باب سارا اُس کے دکھوں
اورموت کی پیشینگوئیوں سے لبریز ہے۔ نیز سیدنا عیسیٰ
مسیح کی اپنی پیشینگوئیوں میں یہ قرآنی تصدیق من وعمن
انجیل مقدس میں مندرج ہے۔ بعینہ آپ کے جی اٹھنے کی
بابت انبیاء صادقین کی کثیر التعداد پیشینگوئیاں مرقوم
ہیں" تواپنے قدوس کو سڑنے نہ دے گا"(زبور ۱۶: ۱۰)"
داؤد اورجتنے مرکردفن ہوئے سب کے جسم سڑگئے اورمٹی
گوشت کو کھاگئی"۔
" خداوند نے میرے خداوند سے کہا
تومیرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے
پاؤں تلے کی چوکی بناؤں"(زبور۱۱۰: ۱)۔
سورہ آل عمران ۵۵آیت اس کی مکمل
تصدیق صادق ہے کہ وہ مارا گیا۔ زندہ ہوکر آسمان پر
تشریف لے گیا اور خدائے قادرِ مطلق کے پاس بیٹھا ہے۔
جہاں سے وہ بطورزندوں اورمردوں کاانصاف کرنے آئے گا۔
یوں وہ دشمنوں سے پاک اورصاف ہوکر غالب آیا۔
اُس کی دوبارہ آمد کے لئے مصنف"
ہمارا قرآن" نے تمام حوالہ جات تحریر فرمائے ہیں۔
اورقرآن مجید نے تحقیق فرمائی ہے کہ سیدنا مسیح قیامت
کی نشانی ہے۔ سورہ الزخرف آیت ۔ پس قرآن مجید سیدنا
مسیح کی موت ، جی اٹھنے اورصعودِ آسمانی کا مصدق صادق
اورمضبوط گواہ ہے۔ اس لئے مخالفینِ قرآن مجید کی
ہرتاویل باطل اورتفسیر کاذبِ قرآن مجید سے ارتداد
وانحراف اوربغاوتِ اعلانیہ ہے۔
اورتحقیق البتہ وہ علامت قیامت کی
ہے۔ پس مت شک لاؤساتھ اس کے اورپیروی کرومیری یہ ہے
صراط المستقیم الزخرف۶۱۔
سیدنا مسیح قیامت کی علامت ہے۔
قیامت ارواحِ انسانی کے لئے ابدی قیامت ہوگا۔
جومنظورنظر الہٰی ہوں گے وہ ابدی آرام کے لئے اورباقی
جومغضوبِ الہٰی کے مورد ہوں گے وہ ابدی عذاب کے لئے جی
اٹھیں گے ۔کیونکہ موت نیست ہوگی اورکسی پروارونہ ہوسکے
گی" اے قبرتیری فتح کہاں رہی۔ اے موت تیرا ڈنک کہاں
رہا"(۱کرنتھیوں ۱۵: ۵۵۔ ہوسیع ۱۳: ۱۴)۔ سب سے پچھلا
دشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے"(۱کرنتھیوں ۱۵:
۲۶)۔
·
سیدنا مسیح قیامت
کی نشانی ہے
اول: اس لئے کہ" فی الواقع مسیح
مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور جوسوگئے اُن میں پہلا پھل
ہوا"(۱کرنتھیوں ۱۵: ۳۰)۔ ابتدائے آفرینش سے ابدی زندگی
کے لئے جی اٹھنے میں مسیح پہلا پھل ہے جو زندہ کئے گئے
وہ پھر موت کا لقمہ ہوگئے ۔ اگر خداوند ابدی حیات کے
لئے موت وقبر پر فتح مند ہوکر جی نہ اٹھتے توقیامت،
ابدی حیات کا کوئی ثبوت نہ ہوتا۔ اس لئے ازروئے قرآن
مجیدسیدنا مسیح کا جی اٹھنا قیامت کی نشانی ہے۔
دوئم۔ اگر بعض بعین قرآن کی
تشریحات خلافِ قرآن کے مطابق سیدنا مسیح قیامت سے پہلے
آکر ، لقمہ موت ہوکر مدینہ منورہ میں دفن ہوں تویہ
قرآنی تصدیق صادق کی مخالفت صریح اورتضادِ عظیم ہوگا۔
کیونکہ نرسنگا یا صورپھونکے جانے پر جب سب مردے جی
اٹھیں گے اُن میں کوئی ایک بھی قیامت کی نشانی قرار
نہیں دیا گیا۔ پس یہ تشریح وایمان تصدیق صادق قرآنی کے
خلاف ہے۔
سوئم۔ مخالفِ مسیح نے یہ افتراء
تقول ایجاد کیا کہ مسیح قبر کشمیر میں مدفون ہے۔ یہ
استدلال واختراع سورہ الزخرف۶۱آیت تصدیق صادق قرآنی کے
خلاف اوربالکل غلط ثابت ہوتاہے۔ اگربقول مخالفِ مسیح
قبرکشمیر میں سیدنا مسیح مدفون ہوتے۔ تووہ قرآنی قول
شہادت اورتصدیقِ صادق کے مطابق قیامت کی علامت وشہادت
نہیں ٹھہرتے۔ اس لئے ہم قادینی اُمت کو دعوت عام دیتے
ہیں کہ وہ مخالف مسیح لغواختراع وبہتان اوراپنے غلط
ایمان کی حمایت کے لئے تصدیق صادق قرآنی کا ابطال
وجواز پیش کریں۔ ورنہ اپنے مقتداء کے اقوال کا ابطال
اوراپنے ایمان کی تردید تسلیم کریں۔ جس کے سوا خلافِ
قرآن ایمان کے لئے اورکوئی چارہ نہیں۔ پس مسیحی ایمان
کہ سیدنا مسیح پنطوس پلاطس کی حکومت میں صلیبی دکھ
اٹھا کر شہید کئے گئے۔ دفن ہوئے اور تیسرے دن مردوں
میں سے جی اٹھے اورآسمان پر تشریف لے گئے۔پروردگارعالم
کےدہنے ہاتھ جا بیٹھے جہاں سے مردوں اورزندوں کا انصاف
کرنے کوتشریف لائینگے اوریہ اصطلاع عام میں قیامت
ہوگی۔
" مسیح کتاب مقدس کے بموجب ہمارے
گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ
مقدس کے بموجب جی اٹھا(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۳، ۱۴)۔ اورقرآن
مجید اس کی لفظ بلفظ تصدیقِ صادق کا شاہد ہے۔ وہ سب جو
اس کے مخالف ہیں وہ قرآن مجید کے مخالف ہیں۔
۱۔ میں مانتاہوں روح القدس کو، بعض
مفسرین نے روح القدس کو جبرائیل فرشت سے تعبیر کیا۔
جوخلافِ قرآن ہے۔ کیونکہ روح اللہ، روح القدس کو ہمیشہ
ملائکہ سے علیحدہٰ بیان کیا گیا ہے۔ اُتارتاہےفرشتوں
کوساتھ روح کے اپنے سے اُوپر جس پر چاہے ۔سورہ النحل
۲آیت۔
چڑھتے ہیں فرشتے اورروح۔ سورہ
المعارج ۴آیت ۔ اورقوت دی ہم نے اُن کوساتھ روح اپنی
کے۔ سورہ المجادلہ ۲۲آیت۔ اعمال ۲: ۴۔ روح اللہ۔ یوسف
۸۷ آیت وغیرہ۔پس ازروئے قرآن مجید بھی فرشتے تعمیل حکم
الہٰی کے لئے ہیں اور کرتے ہیں جوکچھ حکم کئے جاتے
ہیں۔ سورہ النحل ۵۰آیت۔ کیا وہ سب خدمت گذار روحیں
نہیں جونجات کی میراث پانے والوں کی خاطر خدمت کیلئے
بھیجی جاتی ہیں۔ (عبرانیوں ۱: ۱۴)۔
مگرروح القدس ذات الہٰی کا اقنوم
ثالثِ قدرت والا ہے۔ روح القدس تجھ پر نازل
ہوگا(جبرائیل نے فرمایا) لوقا ۱: ۳۵۔ اورقوت دی ہم نے
اُس کو روح القدس سے سورہ البقرہ ۲۵۳آیت ۔ پس ازروئے
قرآن مجید مصدق صادق روح القدس قدرت والا ہے۔
مگرجبرائیل اورفرشتے تعمیل حکم کرنے والے۔
۲۔ ایمان کلیسیائے عام پر۔ کلیسیا
اپنے لفظی معنوں کے مطابق خدا کی برگزیدہ اور دنیا سے
علیحدٰہ کی ہوئی جماعت جو سیدنا مسیح کے کفارہ خون سے
دھل کر ابدی جلال الہٰی کے لئے مخصوص ہوئی جماعت صراط
الذین تمام نعمتوں کی حامل ہے۔
۳۔ ان پاک لوگوں کی رفاقت وافع
عادات وخصلاتِ بد ہے۔
۴۔ گناہوں کی معافی جوکفارہ مسیح
میں حاصل ہوتی ہے۔
۵۔ جسم کے جی اٹھنے ۔
۶۔ ہمیشہ کی زندگی پر ۔
پس قرآن مجید ان صراط الذین کے
ایمان کے منبع کلامِ حق کا مصدق صادق ہے۔ اوراپنے
تسلیم کرنے والوں کواسی ایمان حقیقی کی تقلید کی ہدایت
فرماتاہے۔ اس کے علاوہ جنہوں نے اختراع کئے وہ صراط
المستقیم سے ہنوز بعید ہیں۔ راہ، حق اورزندگی کے
پیروؤں صراط الذین پر یہ نعمتیں ہوئیں کہ " اُس نے بعض
کو رسول ، بعض کو نبی اوربعض کو مبشر اوربعض کو چرواہا
اوراُستاد بناکر دے دیا"(افسیوں ۴: ۱۱۔ اورخدا نے
کلیسیا میں الگ الگ شخص مقرر کئے ۔ پہلے رسول دوسرے
نبی، تیسرے اُستاد پھر معجزے دکھانے والے مددگار ،
منتظم ، طرح طرح کی زبانیں بولنے والے (۱کرنتھیوں ۱۲:
۲۸)۔
پہلے رسول۔ پولس رسول کا بیان یہ
رسول ہونے کی علامتیں کمال صبر کے ساتھ نشانوں اورعجیب
کاموں اورمعجزوں کے وسیلے سے تمہارے درمیان ظاہر ہوئیں
۔ ۲کرنتھیو ں ۱۲: ۱۲۔ مرزا مرحوم کا دعویٰ ۔ سچا خدا
وہ ہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا۔ وافع
البلاصفحہ ۱۱۔ ہم مخالفینِ قرآن سے پرزور مطالبہ کرتے
ہیں کہ ۲کرنتھیوں ۱۲: ۱۲ کے مطابق رسول ہونے کی
علامتیں پیش پبلک کریں۔ جب کہ نشانوں اورعجیب کاموں
اور معجزوں کے لئے قرآن مجید طنزاً فرمایا۔ اوراگر
گراں ہوا ہے اُوپر تیرے منہ پھیرنا اُن کا پس اگر
توکرسکے یہ کہ ڈھونڈھے سُرنگ بیچ زمین کے یا سیڑھی بیچ
آسمان کے پس لے آ تو اُن پاس کوئی نشان اوراگر چاہتا
البتہ البتہ اکٹھا کرتا ان کو اُوپر ہدایت کے پس
ہرگزمت ہوجاہلو سے ۔ سورہ الانعام ۳۵آیت۔ مخالفِ مسیح
کا قول ۔ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں
اورکافروں کی جماعت میں جاملوں جماعتہ البشریٰ صفحہ ۷۹
کیا ایسا بدبخت مفتری جوخودرسالت اورنبوت کا دعویٰ
کرتاہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتاہے؟ اورکیا وہ شخص
جوقرآن شریف پر ایمان رکھتاہے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں
بھی آنحضرت کے بعد نبی اوررسول ہوں؟ (انجام آتھم صفحہ
۲۷) تاہم وافع البلاء صفحہ ۱۱ کے مطابق رسول ہونے کا
دعویٰ کیا۔
ہم ثابت کرچکے کہ
مصدقِ صادق قرآن مجید کا دعویٰ اور شہادت بے بدل ہے۔
کہ صراط المستقیم کی ہدایت طلب کرنے کی تلقین کی گئی
اور ازروئے قرآن مجید یہ ثابت ہے کہ مسیحی ایمان سچا
اور زندہ ایمان ہے ۔ اورمخالفینِ قرآن کے مفروضہ رسول
میں رسولوں کی کوئی علامت ثابت نہیں ہوسکتی توسچے
ایمان سے بضد ہوکر محروم رہنما اورمنہ سے اھدنا الصراط
المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم پڑھنے کے کیا معنی
ہیں؟
اے مخالفینِ صراطِ المستقیم وقرآن
مجید آؤ۔ اورراہ اورحق اور زندگی پر ایمان لاؤ کیونکہ
اُس کے بغیر وسیلے (کوئی منزل مقصود روحانی) باپ کے
پاس نہیں آتا۔
اسی لئے جواس کے وسیلے سے خدا کے
پاس آتے ہیں وہ اُنہیں پوری پوری نجات دے سکتاہے۔
کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے۔
عبرانیوں ۷: ۲۲۔ کاش کہ اس آخری زمانے میں مخالفین
تصدیق قرآنی اس صراط المستقیم کے صراط الذین بن کر
ابدی زندگی کے وارث بنیں۔ آمین۔
نوٹ: صراط الذین انعمت علیھم ۔
مخالفینِ قرآن کی تبلیغ اورتارکانِ مسیحیت کی مثال
ایسی ہے۔ جیسے بادشاہ نے ضیافت کی اورخاص وعام کوبلایا
اورپُرانے چیتھڑے اُتارکر ضیافت میں شرکت کے لئے عمدہ
پوشاکیں پہنائی گئیں۔ اورہرطرح کی نعمتیں نہایت قرینہ
وکثرت سے دسترخوان پر چنی گئیں۔ مگردروازے کے باہر
دعوت سے محروم باغی منکر گروہ کے راہنماؤں نے پُرفریب
تقریریں شروع کیں۔ اورمہمانوں اوربعض شنوا ہوکراٹھے۔
عمدہ پوشاکیں اُتار کر وہی چیتھڑے پہنے اورضیافتوں سے
باہر نکل کر اُس محروم ازنعمت گروہ میں شریک ہوگئے
اوربادشاہ اُن کی بغاوت گمراہی سے ناراض ہوا اوردروازہ
اُن کے لئے بند ہوا۔ اب وہ اُس بھوکے گروہ کے ساتھ مل
کر دروازے کے باہر شورمچاتے اورکہتے ہیں "اے بادشاہ ہم
کو بھی وہ نعمتیں دے جوتونے اپنے مہمانوں کو دسترخوان
پر دیتاہے۔مگرشاہی غضب اُن پر قائم رہتاہے اوروہ کبھی
ان نعمتوں تک پہنچ نہیں پائینگے۔ اگرکوئی مخالف یہ
اعتراض کرنے کی جرات کرے کہ شاہی دسترخوان پر نعمتیں
نہیں تواُس کا مثالاً یہ حوالہ دینا سرتاپا غلط ہے۔
صراط الذین انعمت علیم پس وہ اپنے قول اورورد کا خود
مترود ہے۔