Fasting and its Significance
By
Dr. Samuel Bahjaan M.A., Ph.D.
(بقلم جناب علامہ سیموئیل بھجن صاحب۔ ایم۔
اے ۔ پی ۔ ایچ ۔ ڈی ، جبپلور).
جونہی لفظ " روزہ "ذہن میں آتاہے خیالات
فوراً مذہب اسلام کی طرف مبذول ہوجاتے ہیں۔ ہم لوگ اکثر وبیشتر
یہ سوچتے ہیں کہ روزہ ایک خاص اسلامی چیز ہے جواللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کے لئے فرض کردی ہے۔ اورہم مسیحی قیدِ شریعت سے آزاد
ہونے کی رُو سے اس بارسے سبکدوش ہیں۔ میری ناچیز رائے میں ایسا
سوچنا اشتباہ سے خالی نہیں ،مسیحیت میں روزہ اگر اہم ترین نہیں
توغالباً ایسی چیز بھی نہیں جسے بالکل پسِ پشت ڈال دیا جائے
اورخالص اسلامی لبادہ اوڑھا کر اپنی نظروں سے محوکردیا جائے۔·
یہ صحیح ہے کہ سیدنا مسیح نے روزے کے بارے
میں معین احکام صادر نہیں فرمائے لیکن اُنہوں نے اس رسم کہُنہ
کوایک نئی تفسیر عنایت کرکے اس کی تائید ضرورفرمائی ہے۔وہاں
روزہ رکھنے اورکھولنے کے بارے میں قوانین وضع کرنے کا کام
اُنہوں نے ضروری نہیں سمجھا اوراُسے ہر شخص کی اپنی پسند اورہر
مسیحی کے اپنے طبعی تقاضوں پرچھوڑدیا۔
ایک دفعہ یہودی علمائے دین نے حضور کے
صحابہ کرام کے اس رویہ پر کہ وہ روزہ کی نسبت بے اعتنائی روا
رکھتے ہیں اعتراض کیا تو مولا نے فرمایا " کیا تم دلہا کی
موجودگی میں براتیوں سے روزہ رکھواسکتے ہو ؟ ہر گز نہیں ۔ لیکن
وہ دن آئیں گے کہ دلہا ان سے جدا کیا جائے گا تب وہ روزہ رکھیں
گے ۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقار
کوع ۵ آیت ۳۳)۔ ان ارشاداتِ مقدسہ سے
ربنا المسیح کا نظریہ جووہ روزہ کے بارے میں رکھتے تھے کسی حد
تک روشن ہوجاتاہے۔ مثلاً یہ کہ اگرروزہ محض اس لئے رکھا جائے
کہ دیگر اشخاص کے ہاں یہ رسم کے طورپر رائج ہے تواس سےکیا
فائدہ ؟جس شخص کے دل وجان روحانی نعمتوں سے آسودہ ہیں اُسے
غمناک ماحول کے دروازوں پردستک دینے کی کیا ضرورت ہے؟جب کسی
آنے والی مشکل کا خوف دل پر غالب ہو تو روزے کی ضرورت کسی حدتک
سمجھ میں آسکتی ہے، لیکن اُس حالت میں بھی روزے کے تقدس کی
بجائے روزے کے ثواب پر زیادہ نظر رہتی ہے اورمحض ثواب کی خاطر
روزہ رکھنا سیدنا مسیح کے نظریہ کی معنی میں فقط ایک معاملہ سے
کم نہیں۔·
ایک اورمقام پر منجئی عالمین نے نہایت ہی
واضح الفاظ میں فرمایا ہے"اور جب تم روزہ رکھو تو منافقین کی طرح
اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑ تے ہیں تاکہ
لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا
اجرپاچکے ۔ بلکہ جب تم روزہ رکھو تو اپنے سر میں تیل ڈالو اور
منہ دھو ۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں
ہے تمہیں روزہ دار جانے ۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو
پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر عطا کرے گا۔(انجیل شریف راوی
حضرت متی رکوع ۶ آیت ۱۶ تا ۱۸)۔
اِ ن کلماتِ مبارک سے یہ ظاہرہے کہ اگرروزہ
فقط نمود ونمائش کے لئے رکھا جائے تواُس کا اجراحباب واقارب کی
واہ واہ میں مل جاتاہے۔ لیکن ایسے روزے کی درگاہ ایزدی میں
کوئی وقعت نہیں اوروہاں ثواب کا آرزومند ہونا حماقت ہے۔
درگاہِ الہٰی میں روزے کا ثواب فقط اُس
صورت میں ملتاہے جب روزہ دار روزے کے معاملہ میں فقط اپنے اور
اپنے خدا کے درمیان ایک راز سمجھے نمودونمائش کا خیال نہ ہو۔
دنیاوی تفکرات کو دل ودماغ سے محوکرکے اپنا تمام وقت اپنے
اورخدا کے درمیان رازونیاز ، تشکر دامتنان ، حمدوستائش اور دعا
وعبادت میں گذارے یادرہے کہ اس حالت میں بھی روزے کے ثواب پر
نظر نہ ہو۔·
ایک اہم نکتہ جویادرکھناچاہیے یہ ہے کہ
روزہ کے معاملہ میں جبرواکراہ نہیں ۔ روزہ رکھو تو رضا سے
رکھونہ رکھو تو مجبوری اور ندامت کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔محض
ایک وقت کے لئے کھانا پینا ترک کردینے کا نام روزہ نہیں ، روزہ
یہ ہے کہ اپنا اتنا وقت جس کا مقدور ہو اپنے اوراپنے خدا کے
درمیان بسرکرو اورقبلاً جواُمورواشداد تمہارے اور خدا کے
درمیان حائل تھے اُنہیں پسِ پشت ڈال دو اوران اُمور میں صرف
خوردن ونوشیدن ہی نہیں بلکہ اوربہت سی باتیں بھی شامل ہوسکتی
ہیں ۔ ایک دلچسپ مجموعہ بغل میں دبا کر کسی باغ میں چلے جاؤ
اوردرختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس کے محملی فرش پر دراز
ہوکر روزے کا سارا وقت مطالعہ میں گذارو اورجب افطار کا وقت
آئے گھر چلے آؤ اورنہایت ہی مرُغن ومازذغذائیں اشداد کسی قدر
زیادہ تناول فرمالو؟
جب یہ احساس دامنگیر ہوکہ روزہ ایک نہایت
ہی ناقابل برداشت بار ہے دین اور شریعت نے فرض ٹھہرادیا اور
پھر بھی محض ثواب کی خاطر اس بوجھ کو اٹھائے کی سعی کی جائے
توکیا فائدہ ؟اگرمیں سوچوں کہ روزہ بارتو ہے جس کا متحمل میں
ہوسکتالیکن اگراس محنت سے جی چراتاہوں تونیک نام اورثواب ہاتھ
سے جاتے ہیں ، خیر ہر چہ بادا بادماکشتی درآب انداختیم کے
مصداق روزہ رکھ ہی لو توبتاؤ یہ روزہ داری ہے یا روزہ بازی؟
کیایہی روزے کا مفہوم ہے؟
اگرروزہ دا رہونے سے میرا اولین نصب العین
یہ ہے کہ خویش واقارب کی نظر میں میری قدرومنزلت باقی رہے
اوریوں مجھے احساس ندامت نہ ہو اورساتھی عقبیٰ بھی ہاتھ سے نہ
جائے توبہتر یہی ہے کہ روزہ نہ رکھوں اوربارضا ورغبت اورتشنیح
کا نشانہ نہ بنوں۔ایسی حالت میں میرا شعور، میرا دل اورمیری
روح تومجھے ملامت نہ کرے گی۔ اگرمیں روزے کا بارگراں برداشت
کرنے کی تاب وتواں نہیں رکھتا توجوعلیم کل ہے وہ توجانتا ہی ہے
اورخدا سے اپنے تعلقات اُستوار رکھنا ہر حالت میں افضل ہے۔
خداہم سے محبت رکھتاہے اور اُس کی محبت اُس
پیار سے کہیں اعلیٰ وبرتر ہے جو ایک باپ کو اپنے فرزندوں سے
ہوتاہے۔خدا کب چاہے گا کہ وہ اپنے فرزندوں سے غلام سا سلوک
رورا رکھے اوراُنہیں دیدہ ودانستہ مجبور کرے کہ روزہ رکھو خواہ
زندگی وبال بن جائے اوردل ودماغ بغاوت پر آمادہ ہو جائیں۔ پس
نتیجہ یہ نکلا کہ روزہ کا تعلق اپنی ذات اورشخصیت سے ہے نہ کہ
شرعی فرائض ، دنیا دار اورکورکورانہ تقلید ہے۔
یہودیوں کے دستورِ شریعت کے مطابق ہر سال
ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھا جاتا تھا جسے" یوم
کفارہ " کہتے تھے اوریہ روزہ تمام اہل یہود پر فرض تھا۔چونکہ
منجئی عالمین نے یہودی ماحول میں پرورش پائی تھی آپ ضرور اس
روزے کا اہتمام فرماتے ہونگے" یوم کفارہ کے روزے کی مُدت چوبیس
ساعت ہوتی تھی اوراس دوران میں کسی قسم کی غذا ممنوع تھی۔بعض
اوقات ٹاٹ اوڑھ لینا انتہائی توبہ خضوع دخشوں علامت سمجھی جاتی
تھی۔ مگراس مقررروزہ کے علاوہ یہودیوں میں عام رواج یہ تھا کہ
ہر شخص اپنی مرضی اوراحتیاج کے مطابق اورروزے بھی رکھ لیتا تھا
جن میں خاص قسم کی غذاؤں سے پرہیز کیا جاتا تھا اورہر قسم کے
کام کاج سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا تھالیکن یادرہے کہ ربنا المسیح
نے بشارت کی عظیم خدمت کو شروع کرنے سے پہلے اپنی آزاد مرضی سے
چالیس دن روزے رکھے اوراپنا تمام وقت تنہائی میں خدا سے رفاقت
میں گذارا ۔ یہ چالیس روزے حضور نے اس لئے نہیں رکھے کہ شریعت
کوکوئی ایسا دستور صادر فرمایا تھا۔ بلکہ آپ نے کامل رضا
کارانہ طورپر ایسا کیا اورہزاروں دلوں کو تسخیر رنے کی ایک
نہایت ہی عجیب وغریب قوت حاصل کی۔
مسیحیوں میں چالیس روزوں کا رواج عام ہے۔
اسے شریعت کی پابندی نہیں بلکہ اتباعِ سنتِ عیسوی کہہ سکتے ہیں
اوریہ رواج بھی کہیں چوتھی صدی عیسوی میں شروع ہوا جب مسیحی
کلیسیا میں ربنا المسیح کی تمام شفقتوں اور اذیتوں میں شامل
ہونے کا احساس انتہائی عروج پر پہنچ گیا۔ واضح ہو کہ چالیس
روزے رکھنا مسیحیت کا کوئی اہم بنیادی اصول نہیں ، مسیحیت روزے
کی شرعی طورپر پابندنہیں بناتی بلکہ روزہ کی ایک نہایت ہی
پاکیزہ تفسیر پیش کرکے فرزندانِ خدا کو آزاد چھوڑدیتی ہے ۔
مگرکسی حالت میں بھی ثواب اورنمود ونمائش پر نگاہ نہ رکھیں۔
اگرروزہ صحیح معنوں میں رکھا جائے توکچھ
مدت کے احساس گرسنگی سے بھوکوں اورپیاسوں کی جانگداز تکالیف کا
اندازہ ہوتاہے، طبیعت میں انکساری آتی ہے۔ دل میں محبت واُخوت
کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ ذہن میں خدا کی بے شمار نعمتوں کے
تشکر کا شعور بیدا ہوتاہے۔ روزے میں دعا کے ذریعے محبوب حقیقی
سے رازونیاز ہوتے ہیں، عاشق ومعشوق میں ماسوائے عشق اور احساسِ
قربت کے کوئی دوسری شے حائل نہیں ہوتی۔ دنیا اپنے تمام مشاغل
سمیت خاک نشین نظر آتی ہے ۔ مبارک ہے وہ جو روزے کو اپنے خدا
کے درمیان ایک سرِ روحانی سمجھتاہے اورثواب پر ہیچگاہ نظر نہیں
رکھتا۔ |