(بقلم مسٹر علامہ پال ارنسٹ ، بی ، اے (منشی فاضل ) ازخوش پور)
خواجہ نذیر احمد صاحب (قادیانی) نے خدا کی بادشاہی کا مطلب مقصد اوراُس کی آمد کا زمانہ کچھ کا کچھ بیان کیا ہے۔ انجیلِ مقدس کی رُو سے خدا کی بادشاہی سیدنا مسیح کی ابدی بادشاہی ہے۔یہ سیدنا مسیح کے آنے کے ساتھ دنیا میں آگئی تھی۔ یہ سیدنا مسیح کے جی اٹھنے ،مسیحیت کی اشاعت ،یروشلیم کی تباہی اوریہودیت سے مسیحیت کی پوری جدائی ہوتے وقت اورمسیحیت کی ترقی میں آتی رہی اورآتی رہتی ہے۔ قیامت کے وقت اپنے پورے جاہ وجلال اورآب وتاب کےساتھ آئے گی۔سیدنا مسیح کی بادشاہی کے سوا انجیل شریف میں کسی اور کی بادشاہی کوخدا کی بادشاہی نہیں کہا گیا ہے۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ " خدا کی بادشاہت سیدنا مسیح کے سینکڑوں سال بعد آئی تھی اوروہ سیدنا مسیح کی بادشاہی نہیں ہے۔ سیدنا مسیح تواُس بادشاہی کا صرف پیشرو تھا۔ خواجہ صاحب کے یہ سب دعوے جھوٹے ہیں ۔کیونکہ یہ دعاویٰ انجیل مقدس کی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں۔ جس طرح خواجہ صاحب نے خدا کی بادشاہی کوکچھ کا کچھ بیان کیا ہے ۔ اُسی طرح فارقلیط کوبھی کچھ کا کچھ بیان کیا ہے اورمحض غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ انجیل مقدس میں فارقلیط سے روح القدس مراد ہے۔ اورروح القدس انجیلی زمانہ میں موجود تھا۔ انجیلی زمانہ سے پہلے موجود تھا نہ کہ مسیح کے سینکڑوں سال بعد آنے کو تھا۔ خواجہ صاحب فارقلیط سے آنحضرت صلعم مراد لیتے ہیں مگر انجیل مبارک میں فارقلیط کوصاف صاف اور بوضاحت روح القدس بیان کیا گیا ہے اورروح القدس قرآن مجید میں بھی آنحضرت صلعم کا نام نہیں ہے۔ قرآن میں روح القدس جبرائیل فرشتہ کو کہا گیا ہے ایک دفعہ بھی آنحضرت صلعم کوروح القدس نہیں کہا گیا۔ خواجہ صاحب تو قرآن مجید سے بھی روح القدس کے معنی آنحضرت صلعم ثابت نہیں کرسکتے تویہ انجیل مقدس سے اسے کیسے ثابت کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی روح القدس سے آنحضرت صلعم مراد نہیں توانجیل میں روح القدس سے آنحضرت صلعم کیسے مراد ہسہوسکتے ہیں۔ پھر فارقلیط کوآنحضرت صلعم بتانے والے اس کے معنی احمد بتاتے ہیں۔ سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس دوسرا فارقلیط بھیجونگا۔ ان کے معنی کے مطابق اس کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے کہ میں تمہارے پاس دوسرا احمد بھیجونگا۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ پہلا احمد کون ہے۔ حق بات یہ ہے کہ دوسرا فارقلیط روح القدس ہے اور پہلا فارقلیط سیدنا مسیح خود ہے۔ چنانچہ مقدس یوحنا رسول کے خط میں سیدنا مسیح بھی فارقلیط ہی کہلایا ہے۔ ملاحظہ ہو" باپ کے پاس ہماراایک فارقلیط موجو دہے یعنی یسوع مسیح راستباز" اگرفارقلیط کا بھی اردو میں ترجمہ کردیں تویہ آیت شریفہ یوں پڑھی جائے گی" باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار" موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز " ۔مقدس یوحنا رسول ہی سیدنا مسیح کوفارقلیط لکھتاہے اوروہی روح القدس کودوسرا فارقلیط کہتاہے پس جب وہ یہ لکھتاہے کہ سیدنا مسیح نے روح القدس کودوسرا فارقلیط فرمایا تواُس سے اُس کی مراد یہ ہے کہ پہلا فارقلیط وہ خود ہے۔
مقدس یوحنا رسول نے سیدنا مسیح کی اس بات کا یہی مطلب سمجھا کہ سیدنا مسیح نے جوروح القدس کودوسرا فارقلیط فرمایا تواس سے اُس کی مراد یہ تھی کہ پہلا فارقلیط وہ خود ہے چنانچہ اس کا ثبوت ۱یوحنا ۲باب کی ۱آیت میں پایا جاتاہے جس کا اقتباس اُوپر درج کیا جاچکا ہے یعنی یہ کہ" باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز "وہ اپنا پہلا مددگار ہونا ان لفظوں میں بیان فرماتاہے کہ " جوکچھ تم میرے نام سے چاہو میں وہی کرونگا تاکہ باپ بیٹے میں جلا ل پائے اگرمیرے نام سے کچھ چاہو گے تومیں وہی کرونگا" یوحنا ۱۴باب کی ۱۳ سے ۱۴آیت ۔ اس کے بعد سولھویں آیت میں فرماتاہے کہ" میں باپ سے درخواست کرونگا تووہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے" سترھویں آیت میں دوسرے مددگار کی تشریح یوں کی گئی ہے" یعنی سچائی کا روح جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی ہے اورنہ جانتی ہے" ۲۶ویں آیت میں ہے کہ" مددگاریعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا۔ اورجوکچھ میں نے تم سے کہاہے وہ سب تمہیں یاددلائیگا"۔
خواجہ صاحب کے ہم نوا کہتے ہیں کہ اس مقام میں یونانی میں وہ لفظ تھا جس کا ترجمہ احمد ہوتاہے۔ ہم نواؤں کے خیال میں احمد آنحضرت صلعم کا اسم معرفہ ہے۔ محض صفاتی نام نہیں ہے لیکن انجیل کا لفظ صفاتی نام ہے ۔ انجیل میں یونانی میں اسم معرفہ کیوں نہیں لکھا یعنی یونانی انجیل میں یوں ہوتاکہ میں باپ سے درخواست کرونگا تووہ تمہیں احمد بخشے گا کہ ابدتک تمہارے ساتھ رہے۔ اب اس فقرہ میں لفظ " دوسرا " موجود ہے لیکن اس صورت میں یہ لفظ چھوڑدیا جاتاجیسے میں نے چھوڑدیاہے۔ اگروہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں وہ لفظ تھا جس کے معنی حمد وثنا کیا گیا۔ تعریف کیا گیا ہے اور لفظ احمد کے یہی معنی ہیں پس اس مقام میں احمد ہی کی آمد کی پیشین گوئی تھی جسے تحریف کرکے وہ لفظ رکھ دیاہے۔ جس کا مطلب مددگار ہے یادوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر تحریف کا الزام لگانے والوں اوراس آنحضرت صلعم کی پیشین گوئی بتانے والوں کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے۔اگرا س مقام پر احمد کی پیشین گوئی ثابت ہوسکتی توتحریف کا الزام کیوں لگاتے ۔ اس مقام کومحرف کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مقام سے اس قسم کی کوئی پیشین گوئی ثابت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں لفظ παράκλητος پارا کلے توس نہیں تھا۔بلکہ περικλειτος یا περικλυτός تھا۔ پچھلے لفظ کےمعنی یونانی، ڈکشنری میں یہ لکھے ہیں ۔ جس کی بابت سب کچھ سناگیا ہو۔مشہور ،شہرت یافتہ۔ پہلے کے یعنی پیری کلے توس کے معنی ہیں ہر طرح سے مشہور بہت ہی مشہور ان لفظوں میں خاص معنی شہرت کے پائے جاتے ہیں نہ کہ حملہ کے حالانکہ لفظ احمد میں خاص معنی احمد کے ہیں پس جولفظ یہ لوگ بتاتے ہیں اُسکے معنی بھی محمود یااحمد نہیں ہیں بلکہ مشہور یا معروف ہیں۔علاوہ اس کے یہ قرات یونانی کے کسی ایک نسخہ میں بھی نہیں پائی جاتی ہے ۔ زمانہ اسلام کے قبل کے تراجم میں بھی اس معنی کا کوئی ترجمہ نہیں " آنحضرت صلعم کے بعد کے تراجم کی بابت تویہ کہہ سکتے ہیں کہ مسیحیوں نے تحریف کرکے ایسا کردیاہے۔ مگر اس سے پہلے تواسلام کی کسی بات کے ساتھ خصوصیت نہیں ہوسکتی تھی پہلے تراجم میں یہ موجود نہیں۔ نہ بزرگوں کی دینی تصنیفات میں کہیں اس معنی کا اقتباس ہے۔ پس مسیحی ادبیات میں اس کا نام ونشان تک نہ ہونا اس بات کو ثابت کرتاہے کہ انجیل کی موجودہ قرات بالکل صحیح ہے اور تحریف کا الزام بالکل جھوٹا ہے اوراس پیشینگوئی کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے اوراس مقام کی جوتفسیر کی جاتی ہے وہ جھوٹي تفسیر ہے حق تویہ ہے کہ اس مقام کا اصلی لفظ وہی ہے جواب انجیل میں موجود ہےاورجس کے معنی مددگار ہیں اوراس لفظ سے روح القدس مُراد ہے جس سے انجیل میں نہ آنحضرت صلعم مراد ہیں اورنہ جبرائیل فرشتہ مراد ہے بلکہ خدا کی پاک ذات کا تیسرا اقنوم مراد ہے۔